counter easy hit

نہیں منت کشِ تابِ شنیدن داستان میری

پھر ایک سانحہ، پھر آگ و خون کی ہولی ۔ جھل مگسی میں فتح پور کے مقام پر چیزل شاہ کی درگاہ میں عرس کے موقعے پر خود کش حملہ ۔ دو درجن کے قریب افراد جاں بحق، تین درجن سے زائد زخمی۔ اس درگاہ پر یہ دوسرا حملہ۔ پہلے حملے میں اس سے دگنی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ مسجدوں، امام بارگاہوں اور کلیساؤں پر حملے روز کا معمول بن چکے ہیں۔ خدا کی مملکت میں عبادتیں بھی بندوقوں کی چھتری کے بغیر ممکن نہیں رہی ہیں۔

موجودہ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال اس رجحان کے خاتمے کے لیے بلند آہنگ دعوے ضرور کررہے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان کی جماعت ایسے فیصلوں کو تنسیخ کرنے کی جرأت رکھتی ہے، جو ان عناصر کی قوت اور طاقت کا باعث ہیں؟ کیونکہ ملک کی حکمران اشرافیہ کی بعض غلط حکمت عملیوں اور فیصلوں کے نتیجے میں مذہب کی جگہ مذہبیت کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ ریاستی بیانیہ وضاحتی ان قوتوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنا ہوا ہے، جو بزور طاقت ملک میں یک مسلکی آمریت قائم کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ ان کے اقدامات کا خمیازہ آج پوری پاکستانی عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب تمام مذاہب کے ماننے والے اس بات پر متفق ہیں کہ ’’پیدا کرنے اور مارنے کا اختیار‘‘ پروردگار عالم نے اپنے پاس رکھا ہے، تو پھر اس پروردگار کے نام پر قتال کا منطقی جواز کیا ہے۔ پھر تمام مذاہب کے زعما یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مذاہب عالم انسان کی اصلاح اور فکری تربیت کے لیے آئے ہیں اور ان کا پیغام رحمت اور امن وآشتی ہے، تو پھر مذہب کے نام پر انسانوں کا قتال چہ معنی؟ چنانچہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جب کسی مذہب کو سیاسی مقاصد اور طاقت کے حصول کا ذریعہ بنادیا جائے، تو وہ انسان دوست آفاقی تعلیم سے دور ہو کر مذہبیت کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ عقیدہ کسی فرد کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے۔ یہ بندے کے اپنے خالق سے تعلق کا اظہار ہوتا ہے۔

اس حقیقت کو تسلیم کیا جائے کہ اگر آپ کی نظر میں، میں گمراہ ہوں، تو میری نظر میں آپ کا عقیدہ غلط ہے۔ گویا کوئی بھی فرد دوسرے کے عقیدے کو درست ماننے پر آمادہ نہیں ہے۔ یوں یہ ایک لایعنی بحث ہے، جو سوائے تلخیوں اور کشت و خون جو کسی قسم کی بہتری کا ذریعہ نہیں بنتی۔ صدق دل سے یہ تسلیم کرلیا جائے کہ غلط اور صحیح کا فیصلہ صرف پروردگار ہی کرے گا، تو یہ کشت و خون ختم ہوسکتا ہے۔ اس تصور کو فروغ دینے کا بہترین راستہ یہ ہے کہ ’’اپنا عقیدہ چھوڑو مت، دوسرے کے عقیدے کو چھیڑو مت۔‘‘ اس طرح ہر قسم کے فتنہ و فساد سے بچا جا سکتا ہے۔

یہ تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا کی ان ریاستوں میں جبرواستبداد اور ناانصافی کی راہ کھلیں، جنہوں نے عقیدے کو بطور ریاستی پالیسی اختیار کیا یا نسلی اور لسانی تفاخر کو اپنی شناخت بنایا۔ ایسی ریاستیں زیادہ دیرکرہ ارض پر قائم نہیں رہ سکیں اور اندرونی شکست و ریخت کا شکار ہو کر جلد یا بدیر ختم ہوگئیں، جب کہ وہ مملکتیں عالم انسانیت کے لیے قابل فخر ٹھہریں، جنہوں نے فکری و نظریاتی کثرتیت کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا، یعنی ہمہ دینیت کی راہ اختیار کی اور نسلی و لسانی تعصب سے گریز کیا۔ اس سلسلے میں سائرس اعظم (600 سے 530 قبل مسیح) کی مثال دی جا سکتی ہے۔

اس کی سلطنت بابل ونینوا سے وسط ایشیا تک پھیلی ہوئی تھی، جہاں دنیا کی کل آبادی کے 44فیصد انسان بستے تھے۔ ان میں ہر مذہب ،عقیدے اور نسلی و لسانی تشخص کے حامل افراد شامل تھے۔ وہ تاریخ عالم کا پہلا حکمران تھا، جس نے مذہبی رواداری اور نسلی ولسانی مساوات کی بنیاد رکھی۔ اس کا کہنا تھا کہ عقیدہ انسان کے ضمیر کا معاملہ ہے، جب کہ نسل اور لسان اس کے سماجی تشخص کا ذریعہ ہوتی ہے۔ اس سے قبل مفتوحہ علاقوں کے عوام کوجبراً فاتح حکمران کاعقیدہ قبول کرنے پرمجبور کیا جاتا تھا۔

اب جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، تو ریاست کی تشکیل کے لیے مذہب کو بنیاد ضروربنایا گیا تھا، لیکن قیام پاکستان کے بعد بابائے قوم کا ذہن کلی طورپر واضح تھا کہ پاکستان کو وفاقی جمہوری ریاست بنانا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان کے قومی جھنڈے میں غیر مسلمانوں  کے تشخص کی خاطر سفید پٹی شامل کرائی۔ ساتھ ہی دستور سازاسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں نئی مملکت کے خدوخال تفصیل کے ساتھ پیش کیے، لیکن ان کی آنکھ بند ہوتے ہی ان کے جاں نشینوں نے ان کے تصور ریاست کی دھجیاں بکھیر دیں۔اس پر طرہ یہ کہ بھٹو مرحوم نے دوسری آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمان کو عام شہریوں کے عقائد میں مداخلت کا آئینی جواز فراہم کردیا۔ ان قوانین اور جنرل ضیا کے اقدامات کے نتیجے میں پاکستان مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کی آماجگاہ بن گیا۔

یہاں چند سوالات غور طلب ہیں۔ تین ہزار برس سے یہودی جن خطوط پر چل رہے ہیں،کیا وہ حضرت موسیٰؑ کا تصور دین ہے؟ مسیحی اقوام دو ہزار برس سے جس نوعیت کے جنگ و جدل میں مبتلا چلی آرہی ہیں، کیا وہ حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات ہیں؟ کیا بدھ بھکشو آج روہنگیا میںجو کچھ کررہے ہیں، اس کا کوئی تعلق مہاتما بدھ کی تعلیما ت سے بنتا ہے؟ کیا مسلمانوں نے کبھی اپنے رسولﷺ کی جانب سے قائم کردہ مدینہ کی ریاست کے فکر و فلسفہ سمجھنے کی کوشش کی؟ کیونکہ مدینہ کی ریاست انسانی تاریخ کی پہلی ریاست تھی، جس میں یہودیوں سمیت دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو مساوی شہری حقوق دیے گئے تھے۔

اب اگر برصغیرکی 8 سو برس پر محیط تاریخ کا مطالعہ کریں، تو اس خطے میں اسلام کے پھیلنے میں نہ حکمرانوں کا کوئی کردار ہے اور نہ علما کی تبلیغ کا کوئی دخل ہے۔ برصغیر میں اسلام صرف صوفیا کی تحمل، رواداری اور برداشت کی حکمت عملیوں کے نتیجہ میں پھیلا ہے۔ صوفیاکا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے وحدانیت کے تصورکو مقامی ثقافتی اقدار سے ہم آہنگ کر کے اسلام کو اس خطے میں مضبوط بنیاد فراہم کی۔ جب کہ علما نے بدیسی کلچر کو اسلام کے نام پر پیش کر کے اسے مقامی آبادی میں اجنبیت سے دوچار کیا۔ نام نہاد پارسا پیوریٹنز آج بھی یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔مگر برصغیر کے مسلمانوںکی اکثریت ان کے سحر میں گرفتار ہونے کے بجائے صوفیا کے ساتھ عقیدے کے چراغ جلائے ہوئے ہے ۔ ردعمل میںشدت پسند عناصر غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر قتل و غارت گری کی راہ اپنائے ہوئے ہیں۔

اس پہلو کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر برصغیر میں صوفیا نہ ہوتے تو مسلمانوں کا اتنی کثیر تعداد میں ہونا ممکن نہیں تھا۔ یہ صوفیا کے فیوض و برکات ہیں کہ جب برصغیر میں مسلمانوں کی حکمرانی ختم ہوئی، تو کسی بھی غیر مسلم حکومت میں اتنی ہمت نہ ہوسکی کہ وہ مسلمانوں کو اس خطے سے نکال باہر کرے۔گو کہ آج بھارت انتہا پسندوں کی گرفت میں ہے، مگران میں اتنی جرأت نہیں کہ مسلمانوں کی سیاسی قوت کو ختم کرسکیں۔ یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسپین میںمسلم حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی وہاں مسلمانوں کا وجود بھی ختم ہوگیا۔ جس کا بنیادی سبب وہاں صوفیا کی عدم موجودگی تھا ۔ حالانکہ جس طرح ہندوستان پر مسلمان 7سو برس حکمران رہے، کم و بیش اتنا ہی عرصہ اسپین میں بھی ان کی حکمرانی تھی۔اس لیے جو عناصر صوفیا کے مزارات کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، وہ دراصل اس خطے میں اسلام کی بنیاد کو کھوکھلا کررہے ہیں۔

لہٰذا یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ تمام شہریوں کو باور کرائے کہ یہ ملک بانی پاکستان کے تصورات کے مطابق ایک وسیع البنیاد مسلم مملکت ہے، جس میں ہر مذاہب، عقیدے، فرقے اور مسلک کے ماننے والوں کو اپنے عقائد اور نظریات پر آزادانہ عمل کرنے کا پورا آئینی حق حاصل ہے۔ کسی مسلکی گروہ کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ طاقت کے بل بوتے پر اپنے مسلک کی سیاسی برتری قائم کرے ۔ اس سلسلے میں ہر عقیدے، فرقہ اور مسلک کے ماننے والے اکابرین کو آمادہ کیا جائے کہ وہ مذہب کو بطور سیاسی قوت استعمال کرنے کے بجائے بقائے باہمی کے لیے ایک نئے عمرانی معاہدے پر متفق ہوں،تاکہ ملک  سے افراتفری اور انتشار کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔