counter easy hit

شہباز شریف کی کل قومی اسمبلی میں ماری گئی بڑھک کا پول کھل گیا ، شریف خاندان کی خوشنودی اور خوشامد کے حصول کے لیے حواریوں کی انوکھی کارروائیاں ۔۔۔۔ابراج گروپ کی دستاویزات نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا

اسلام آباد (ویب ڈیسک) ابراج گروپ کی میڈیا کو لیک ہونیوالی بعض اندرونی دستاویزات سے انکشاف ہوا ہے کہ کمپنی کے کروڑوں ڈالرز کے فند عارف نقوی کے ذاتی اکاونٹ میں منتقل ہوئے جو سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں کے الیکٹرک کی ڈیل میں استعمال ہوئے۔ تاہم عارف نقوی کا کہنا ہے کہ
روزنامہ جنگ میں آج شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ۔۔۔۔۔۔ میرے خلاف الزامات جھوٹے ہیں جو غیر قانونی طور پرحاصل کردی دستاویز سے سیاق و سباق سے ہٹاکر لئے گئے ۔ مسٹر نقوی نے کہا کہ ابراج فنڈز سے ابراج ٹریژری میں خاصی مقدار میں پیسہ منتقل ہوا۔ تاہم خاصی مقدار میں پیسہ دوسری جانب بھی منتقل ہوا جس کا ریکارڈ موجود ہے۔ بینک اسٹیٹمنٹ ، کمپنی کی ایل میل اور دیگر دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ابراج ٹریژری نے 200ملین ڈالر سے زائد مسٹر نقوی کے ڈوئچے بینک اے جی اور کاوٹ اینڈ کو بینکوں میں موجود ذاتی اکاونٹ میں منتقل کئے، اور اسی طرح سے ان کمپنیوں میں منتقل کئے جو ان کی ، ان کے خاندان کی اور ایک سابق معاون کی ملکیت ہیں۔ مسٹر نقوی کا موقف ہے کہ وہ ابراج سے فنڈز نکالنے کا مکمل استحقاق رکھتے تھے اور فنڈز کی اس منتقلی میں کچھ بھی نامناسب نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ادائیگیوں کا ریکارڈ ان کے کمپنی کی طرف واجب الادا قرضے کی صورت میں رکھا گیا ہے۔ کمپنی کی ای میل اور واقف حال ذرائع کے مطابق مسٹر نقوی نے 2015اور 2016میں بونس کے طور پر 60ملین ڈالر وصول کئے۔ اسی دوران ابراج گروپ نے کے الیکٹرک میں اپنے شیئرز کو بیچنے کا ارادہ کیا
اور اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف، انکے بھائی شہباز شریف کی حمایت حاصل کرنے کی خاطر بزنس مین نوید ملک کو 2کروڑ ڈالر دئے کہ وہ یہ کام کرا کے دیں۔ کمپنی کی ایم میل اور معاملات سے آگاہ لوگوں کے ذریعے معلوم ہو اکہ حکومت کا کے الیکٹرک میں حصہ ہے اور اسے بیچنے کیلئے حکومتی اجازت ضروری ہے۔ ابراج کے شراکت دار عمر حلودھی کی جانب سے نوید ملک کو کی گئی اکتوبر 2015کی ای میل کے مطابق شہباز شریف چینی کمپنی کو بیچنے کے پرزور حمایتی تھے۔ مسٹر لودھی نے ای میل میں لکھا کہ مسٹر ملک نے کہا کہ دونوں بھائیوں سے ہر معلومات شیئر کرنا اور انکی حمایت حاصل کرنا ضروری ہے اور یہ ہدایت بھی لینا ضروری ہے کہ پیسہ (دو کروڑ ڈالر) کیسے تقسیم ہو جیسا کہ کچھ پیسہ خیرات میں اور کچھ حصہ الیکشن کے فنڈ میں۔ جب مسٹر نقوی نے جون 2016 میں مسٹر ملک کیلئے 20 ملین ڈالرز کے کنٹریکٹ کے حوالے سے مسٹر لودھی کو ای میل کی تو اس میں لکھا ’یہ دستاویز غلط ہاتھوں میں دھماکا خیز ہے، ابراج اور کے الیکٹرک کا نام اس دستاویز میں نہیں ہونا چاہئے‘۔ انہوں نے لکھا ’اسے عمومی رکھو‘۔ مسٹر لودھی نے جواب دیا ’نوٹ کرلیا‘۔ مسٹر ملک نے تبصرہ کیلئے کی گئی درخواست پر کوئی جواب نہیں دیا۔