counter easy hit

کراچی میں بھی میٹرو بسیں

گزشتہ روز وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا بیان آنکھوں کے سامنے سے گزرا، پہلے تو سوچا جانے دیا جائے ،تاہم پھر استاد محترم کی بات یاد آئی کہ اکثر چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو نظرانداز کرنے سے ہی بڑے بڑے حادثے رونما ہوتے ہیں۔اس لیے اپنے وزیراعلیٰ صاحب کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے ایک ادنی ٰ سی کوشش کررہا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وزیراعلیٰ صاحب ناراض نہیں ہوں گے بلکہ کھلے دل سے اسے سمجھنے اور قائل ہونے کی کوشش کریں گے۔

وزیراعلیٰ سندھ فرماتے ہیں کہ اگر تھرمیں ترقی نہ کرتے تو آج کراچی میں چار عدد  میٹرو  بسیں چل رہی ہوتیں۔ محترم کے اس بیان پر یہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ ”دل کو روؤں کہ پیٹو ں جگر کو میں”

سندھ میں سب سے زیادہ حکومت پیپلزپارٹی کی ہی رہی ہے، اگر حکومت کے پاس وقت نہیں تو دانشوروں اور محققین سے کہہ دے ، وہ انہیں بتا دیں گے کہ ان کی حکومتوں نے کیا کیا کارنامے انجام دیے اور کتنی کرپشن کہاں کہاں کی گئی۔ مشرف دور جیسا بھی رہا مگر اس نے کراچی کے حوالے سے جو کام کیے وہ آج تک کسی نے نہیں کیے۔ پیپلزپارٹی اپنے وژن کو ہی روتی رہی کہ بھٹو نے 2050ء تک کا وژن دیا ہے۔ بے شک دیا ہے مگر اس پر عمل درآمد کسی اور نے کیا ۔ کراچی پروجیکٹ نعمت اللہ خان صاحب نے بنائے مگر عمل مصطفی کمال نے کیا۔ آج جس تھر کی وزیراعلیٰ سندھ بات کررہے ہیں اسی تھر میں وہاں کے باسیوں نے اپنے شیر خواربچوں کی لاشیں صرف اس بناء پر اٹھائیں کہ انہیں غذا میسر نہیں تھی۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری وساری ہے۔ کوئی صدیوں پرانی بات ہوتی تو سمجھ میں بھی آتا کہ ہماری حکومت تاریخ سے ناواقف ہیں مگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان واقعات کی شروعات تو محض تین سے چار سال پہلے کی ہے ۔

جس ترقی کی بات سندھ حکومت کررہی ہے وہ ترقی ہم نے بھی دیکھی ہے جہاں آر او  پلانٹ تو لگادیے گئے مگر ان میں پانی کا نام ونشان تک موجود نہیں تھا۔میڈیا کے شورپر عجلت میں اسپتال بنائے گئے  مگر کوئی سہولیات فراہم نہیں کی گئی۔ ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ ان اسپتالوں  میں کوئی  بھی جانے کو بھی تیار نہیں تھاجس پر پرائیوٹ سیکٹرز کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت وہاں پیرا میڈیکل اسٹاف مہیا کیے۔سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ صاحب کو دکھانے کے لیے جس اسپتال کا وزٹ کرایا گیا وہاں پہلے مریضوں کو صاف ستھرے کپڑے پہنائے گئے ،وزٹ کے بعد انہی مریضوں کو اسپتال سے بھی باہر نکال دیاگیا۔ یہ سب میڈیا میں آچکا ہے اور اتنا پرانا بھی نہیں کہ اسے بھلا دیاجائے۔

چار میٹرو تو دور کی بات کراچی میں اب تک گرین اور اورنج لائن منصوبہ بھی کھٹائی میں پڑا ہوا ہے ۔ سرکلر ریلوے کی زمین کو لیزیں فراہم کرکے اس منصوبے کو التوا کا شکار بنادیاگیا ۔ پنجاب میٹرو پر بقول شہباز شریف کے پینتیس ارب روپے اخراجات آئے ہیں۔ اگر کراچی میں بھی یہ لاگت شمار کی جائے تو اس کا مطلب ایک کھرب چالیس ارب روپے آپ نے تھرمیں لگادیے ہیں۔ اس سے تو ایک نیا پنڈورا باکس کھل جائے گا کہ آیا اتنی بڑی رقم تھرمیں کہاں خرچ کی گئی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق تھرمیں اب تک ڈھنگ سے کوئی پروجیکٹ بھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا۔ ایسے میں یہ رقم کہاں گئی؟

عوام تو یہ بھی نہیں بھولی کہ جب ترقی یافتہ تھرمیں شیر خوار غذا نہ ملنے پر دنیا سے رخصت ہورہے تھے اس وقت پیپلزپارٹی موہن جو داڑو میں کلچر ڈے منا رہی تھی ۔اسی ترقی یافتہ تھرمیں آج بھی اسکول ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہیں،وہاں کے بچے اب بھی محنت مزدوری کررہے ہیں ،خواتین وہی رلی اور برتھ سی کر اپنی بینائیوں کو ختم کررہی ہیں ،لائیو اسٹاک کا حال بھی کچھ زیادہ اچھا نہیں، مال مویشی بھی انسانوں کی طرح غذائی قلت کا شکار ہیں، ایک مٹکا پانی بھرنے اب بھی خواتین میلوں کا سفر کررہی ہیں ،آخر کہاں ہے وہ ترقی جو ہمیں نہیں دکھائی دے رہی ۔ اگر یہ ترقی صرف کاغذ تک محدود ہے تو پھر آپ کی بات پر یقین کیاجاسکتا ہے ،بصورت دیگر کھلی آنکھوں سے دھوکا کھانے کا رواج اب ختم ہوچکا ہے۔

کراچی میں کچرا اٹھانے کے لیے سندھ سرکار پرائیوٹ کمپنیوں سے بات کرتی ہے ،پارکس بحریہ والوں کو دیے جاتے ہیں ، ٹرانسپورٹ کا کرپٹ نظام بھی پرائیوٹ لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اسکول این جی اوز کے حوالے کیے ہوئے ہیں ، اسپتال مخیر حضرات کے تعاون سے چل رہے ہیں ۔ باقی کون سا ایسا کام بچا  ہے جو سندھ حکومت اپنے بل بوتے پر کررہی ہوں؟بلدیہ ٹاؤن ،اورنگی ٹاؤن ، گڈاپ ،ماڑی پورسمیت شہر کے دیگر کئی ایسے علاقے ہیں جہاں آپ جائیں تو گندگی ،سیوریج کے پانی کے جوہڑ، ٹوٹے پھوٹے روڈ اور گلیاں ،جگہ جگہ کچروں کے پہاڑ آپ کا استقبال کریں گے۔ ساتھ ہی غربت اور بے بسی کی تصویر بنے لوگ بناء ماتھے پر کوئی شکن لائے آپ کو خوش آمدید کہیں گے۔ ان کے پاس اب شکوہ کرنے کے لیے بھی کچھ نہیں بچا۔

تھرمیں معلوم نہیں کہ ہر گھرمیں نل لگا کہ نہیں مگر کراچی کے ان علاقوں میں لوگ گزشتہ کئی سالوں سے پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ مصطفی کمال نے ان علاقوں میں لوگوں کے لیے عوامی ٹینک بناکر دیے تھے ،مگر اب ان کا بھی نام ونشان مٹ چکا ہے بلکہ وہاں اب قبضہ مافیا نے گھر اور دکانیں بناکر اس عوامی ٹینک کی زمین کو بھی بیچ دیا ہے ۔ یہ سب کچھ سندھ سرکار کی آنکھوں کے نیچے ہوتا رہا اور سندھ سرکار سب اچھاہے ،اچھا ہے کا مذاق کرتی رہی۔

اب الیکشن نزدیک ہیں اس لیے دعوے بھی چار چار میٹرو  والے ہی ہوں گے۔ تاہم اب عوام پہلے سے زیادہ باشعور ہوگئے ہیں۔ امید ہے اب آپ کراچی کے ان پسماندہ علاقوں کی طرف بھی نظر کرم کریں گے جس طرح تھر میں کی ہے۔