counter easy hit

’’علم کی اہمیت‘‘

Knowledge

Knowledge

مشہور یونانی فلسفی افلاطون نے ایتھنز میں اکیڈمی کھولی جہاں وہ امراوشرفا کے لڑکوں کو تعلیم دینے لگا۔ جب اکیڈمی میں خاصی چہل پہل ہوگئی، تو اس نے روزمرہ کام کاج کی خاطر ایک اٹھارہ سالہ لڑکا بطور خدمت گار رکھ لیا۔ وہ لڑکا چائے پانی لاتا اور دیگر چھوٹے موٹے کام کرتا تھا۔ یہ اکیڈمی صرف امرا کے لیے مخصوص تھی۔ چنانچہ لڑکا اپنا کام کرچکتا، تو باہر چلا جاتا۔ اُدھر جماعت کے دروازے بند کیے جاتے اور افلاطون پھر طلبہ کو تعلیم دینے لگتا۔ وہ لڑکا بھی دروازے کے قریب بیٹھا اندر ہونے والی باتیں سنتا رہتا۔

دو ماہ بعد افلاطون کی جماعت کانصاب ختم ہوگیا۔ اب حسب روایت ایک شاندار تقریب منعقد ہوئی۔ اس میں شہر کے سبھی عالم فاضل شرکت کرتے تھے۔ طلبہ کے والدین بھی شریک ہوتے ۔تقریب میں جماعت کے ہرطالب علم کا امتحان بھی ہوتا، وہ یوں کہ ہرایک کو کسی موضوع پر سیرحاصل گفتگو کرنا پڑتی۔ چنانچہ اس تقریب کا موضوع ’’علم کی اہمیت ‘‘ تھا۔ افلاطون کی جماعت سے حال ہی میں فارغ التحصیل ہونے والے طالب علم ڈائس پہ آتے، موضوع کے متعلق کچھ جملے کہتے اور پھر لوٹ جاتے۔ کوئی طالب علم بھی ’’علم کی اہمیت‘‘ پر متاثر کن تقریر نہ کرسکا۔ یہ دیکھ کر افلاطون بڑا پریشان ہوا۔

اچانک خدمت گار لڑکا اس کے پاس پہنچا اور گویا ہوا ’’کیا میں تقریر کرسکتا ہوں؟‘‘ افلاطون نے حیرت اور بے پروائی کی ملی جلی کیفیت میں اسے دیکھا اور پھر لڑکے کی درخواست مسترد کردی۔ اس نے کہا ’’میں نے تمہیں درس نہیں دیا، پھرتم کیسے اظہار خیال کرسکتے ہو؟‘‘ لڑکے نے تب اسے بتایا کہ وہ پچھلے دو ماہ سے دروازے پر بیٹھا اس کا درس سن رہا ہے۔

تب تک افلاطون اپنے تمام شاگردوں سے مایوس ہوگیا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے نوجوان کوحاضرین کے سامنے پیش کیا

لڑکے کو تقریر کرنے کا اشارہ کیا۔ لڑکا بولنا شروع ہوا، تو آدھے گھنٹے تک علم کی فضلیت پر بولتا رہا۔ اس کی قوت گویائی اور بے پناہ علم دیکھ کر سارا مجمع دنگ رہ گیا۔ تقریر بڑی مدلل اور متاثر کن تھی۔ جب لڑکا تقریر مکمل کرچکا، تو افلاطون پھر ڈائس پر آیا اور حاضرین کو مخاطب کرکے بولا ’’آپ جان چکے کہ میں نے پوری محنت سے طلبہ کو تعلیم دی اور دوران تدریس کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتی۔ میرے شاگردوں ہی میں سیکھنے کے جوہر کی کمی تھی، اسی لیے وہ مجھ سے علم پانہ سکے ۔ جبکہ یہ (لڑکا) علم کی چاہ رکھتا تھا، لہٰذا وہ سب کچھ پانے میں کامیاب رہا جو میں اپنے شاگردوں کو سکھانا چاہتا تھا۔‘‘

۔آج دنیا اس “لڑکے “کو “ارسطو “کے نام سے جانتی ہے جس نے فلسفے سے لے کر سائنس تک میں اپنے نظریات سے دیرپا اثرات چھوڑے۔ اس کا شمار نوع انسانی کے عظیم فلسفیوں اور دانش وروں میں ہوتا ہے