counter easy hit

اپنے ہاتھوں کی لگائی گِرہیں

میں نے اپنی عمر کے بارہ برس بھی پورے نہیں کئے تھے کہ ہر جمعے اپنے سکول کی نمائندگی کے لئے ریڈیو پاکستان لاہور کے معلوماتِ عامہ کے ایک شو میں جانا شروع ہوگیا۔ اس کوئز میں کامیاب رہنے والا طالب علم آئندہ جمعے کے مقابلہ میں بھی شمولیت کا حق دار ہوا کرتا۔ میری خوش قسمتی رہی کہ میٹرک کا امتحان پاس کرنے تک میں اس مقابلے میں شریک ہوتا رہا۔
ریڈیو پاکستان لاہور کا ماحول ان دنوں فن وثقافت سے تعلق رکھنے والے تمام شعبوں کے گرو مانے لوگوں سے مالامال تھا۔ یہ سب بہت فیاض لوگ تھے۔ میری عمر کے بچوں کو انتہائی شفقت سے اپنے پاس بلاکر بٹھاتے۔ ہم ایسوں کے لئے کوک کی ایک بوتل بہت بڑی عیاشی سمجھی جاتی تھی۔ ان بزرگوں کی بدولت وہ ایک نہیں دو تین بار مل جاتی۔ ان کی صحبت میں ہوئی گفتگو ہمیں سمجھ بہت کم آتی، مگر چند الفاظ اور اصطلاحات سے آشنائی ضرور ہوگئی۔سب سے اہم بات یہ رہی کہ اپنے فن کی وجہ سے شہرت کی انتہاﺅں کو چھوتے افراد کی شفقت نے مجھے سٹار سٹرک ہونے سے بچالیا۔
ملکہ ترنم نور جہاں جیسی شہرئہ آفاق فن کارہ سے پہلی ملاقات ہوئی تو بڑے اعتماد سے میں نے ان کے مختلف گانوں کا تذکرہ شروع کردیا۔ وہ مسکراتے ہوئے میری سادگی کو برداشت کرتی رہیں۔ ریڈیو پاکستان لاہور میں بیٹھے ہوئے کبھی احساس ہی نہیں ہوا کہ صوفی تبسم اُردو اور فارسی زبانوں کے کتنے اہم اور مستند گردانے گئے استاد تھے۔ امانت علی خان مرحوم کی علم موسیقی پر گرفت کتنی گہری تھی۔ یاسمین طاہر اور موہنی حمید کی آوازیں، انسانی جذبوں کے ہر شیڈ کو ادا کرنے کی خداداد صلاحیت کی حامل تھیں۔
صحافت سے عملی زندگی کا آغاز کرتے ہوئے ریڈیو پاکستان لاہور کے دیئے اعتماد کی بدولت ہی اپنے ملک کے طاقت ور سیاستدانوں اور فیصلہ سازوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹھوس سوالات اٹھانے کا عادی ہوا۔ ایمان دارانہ بات یہ بھی ہے کہ ماضی کے سیاست دان بھی اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود ایک رپورٹر کے فرائض اور ذمہ داریوں کو خوب پہچانتے تھے۔ اُنہیں رپورٹروں کو اپنے پبلسٹی ایجنٹ بنانے کی لت نہیں لگی تھی۔ گھنٹوں تک کئی باتیں ان کے ساتھ ”آف دی ریکارڈ“ ہوتیں۔ ان باتوں کی وجہ سے مجھ ایسے رپورٹروں کو سیاست کی مجبوریاں اور باریکیاں سمجھ آئیں۔ بہت جلد دریافت ہوگیا کہ ہر ذہین سیاست دان کا اصل ہدف اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔ اقتدار حاصل کرنے اور اسے اپنے پاس رکھنے کے لئے کئی سمجھوتے بھی کرنا ہوتے ہیں۔ یہ سمجھوتے کتابی علم رکھنے والے لوگوں کی نظر میں ناقابلِ معافی ہوا کرتے ہیں۔ بطور رپورٹر ہمارا بنیادی کام مگر کسی سیاست دان کی لگائی گیم کو سمجھنا ہے۔اسے اصولوں وغیرہ کا درس دینا ہمارا فریضہ نہیں۔
ہر سیاستدان کے چند تگڑے حریف بھی ہوا کرتے ہیں۔ رپورٹنگ کا اصل ہنر مگر یہ ہے کہ آپ باہمی چپقلش میں مصروف سیاستدانوں کا ،جو اکثراور نوعیت کے شو ڈاون میں الجھے ہوتے ہیں،یکساں طورپر اعتماد حاصل کرپائیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو سے میری ملاقاتیں1978ءمیں شروع ہوئی تھیں۔ اپنے ناگہانی قتل تک انہوں نے مجھ پر ہمیشہ اعتماد کیا۔ اپنی سوچ کو دلائل کے ذریعے درست ثابت کرنے میں کئی گھنٹے صرف کئے۔ غلام مصطفےٰ جتوئی مرحوم اور جام صادق علی ان کے بدترین مخالفین میں تبدیل ہوگئے تھے۔ یہ دونوں افراد بھی مجھے اپنے گھر کے فردمانند سمجھتے تھے۔ محترمہ کو ان تعلقات کا بخوبی علم تھا۔ اس کے باوجود ان کا مجھ پر اعتماد کبھی کمزور نہ ہوا۔
سردار فاروق خان لغاری ایوان صدر پہنچنے کے بعد جب محترمہ سے دور ہونا شروع ہوئے تو میں اسلام آباد کے ان چند رپورٹرو ں میں نمایاں ترین تھا جسے ان دونوں کے مابین بڑھتے اختلافات کی خبر ہوئی۔ میں نے اشاروں کنایوں میں ان کا تذکرہ بھی شروع کردیا تھا۔ لغاری صاحب نے کبھی شکایت نہ کی۔ چند مشیروں کے بارہا اُکسانے کے باوجود محترمہ نے بھی تنہائی میں مجھ سے یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ سردار صاحب درحقیقت کیا گیم لگارہے ہیں۔ انہیں خبر تھی کہ میں صرف ایک رپورٹر ہوں۔ ان کی پارٹی کا جیالا یا حکومت کا مخبر نہیں۔
اس کالم کی ضرورت سے زیادہ لمبی تمہید باندھنے کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ گزشتہ اتوار ایک بھائیوں ایسے دوست نے عمران خان صاحب کے لئے رات کے کھانے کا انتظام کیا تھا۔ کھانے کی اس دعوت میں مجھے بھی ارشد شریف،رﺅف کلاسرا اور عامر متین کے ہمراہ بلالیا گیا۔ ہم تینوں دو سے زیادہ گھنٹوں تک تحریک انصاف کے قائد سے گفتگو کرتے رہے۔ اس گفتگو میں ”خبریت“ سے کہیں زیادہ اہم بات یہ معلوم کرنا تھی کہ پانامہ سکینڈل کے اس اہم ترین مرحلے سے عمران خان کی کیا توقعات ہیں۔ وہ توقعات پوری نہ بھی ہوں تو تحریک انصاف آئندہ انتخابات کے لئے کیا حکمت عملی بنائے ہوئے ہے۔
اس ملاقات کے اختتام پر رخصتی کے وقت گروپ فوٹوز بھی ہوئے۔ میں نے شرارتاََ اپنا سمارٹ فون بھی کیمرہ مین کو دے دیا اور اپنے لئے ایک تصور بنانے کی درخواست کردی۔ یہ تصویر اُترواتے وقت میں نے عمران خان کو مذاقاََ یہ بھی کہا کہ یہ تصویر میں اپنے انٹرنیٹ اکاﺅنٹس پر ڈالوں گا اور ان کے متوالوں کے ردعمل سے محظوظ ہوں گا۔ عمران خان میرے پھکڑپن سے لطف اندوز ہوتے ہوئے رخصت ہوگئے۔
گھر پہنچ کر میں نے یہ تصویر جب اپنے ٹویٹر اور فیس بک اکاﺅنٹس پر پوسٹ کی تو کہرام مچ گیا۔ عمران خان کے بے شمار چاہنے والے اپنے تئیں یہ طے کر بیٹھے کہ شاید ان کے لیڈر سے ملاقات کے بعد میں ”راہِ راست“ پر آگیا ہوں۔ عمران خان کے مخالف بہت حیران ہوئے مگر یہ جاننے کو بے چین بھی کہ تحریک انصاف کے سربراہ ”کچھ بدلے بھی ہیں یا نہیں“
عمران خان کے ساتھ اپنی تصویر میں نے محض شرارتاََ پوسٹ کی تھی۔ اس پر آئے تبصروں نے مجھے لیکن اداس وپریشان کردیا ہے۔ بنیادی دُکھ اس حقیقت کا ٹھوس الفا ظ کے ذریعے اظہار کی وجہ سے ہوا کہ ہمارے نوجوانوں کی اکثریت کو احساس ہی نہیں کہ کسی بھی رپورٹر کا بنیادی فرض تمام سیاستدانوں سے مل کر ان کی رائے کو طویل المدتی بنیادوں پر سمجھنا ہوتا ہے۔سیاست دانوں سے رپورٹروں کی ملاقاتیں عجوبہ نہیں بلکہ روزمرہّ کا معمول ہیں۔ ہمارا معاشرہ مگر اندھی نفرتوں اور عقیدتوں میں خوفناک حد تک تقسیم ہوچکا ہے۔ نواز شریف سے میری خوش گوار لمحات میں ملاقات کی اگر تصویر بنے تو اس کا مطلب میرے لئے ”بھاری لفافے“ کا اہتمام ہوگا۔ آصف زرداری سے مسکراتے ہوئے مل کر میں ان کے ”سوئس اکاﺅنٹس“ کا دفاع کرنے والا بن جاﺅں گا۔ عمران خان سے ملاقات فی الوقت یہ پیغام دے گی کہ میں نے ”حق وصداقت“کی راہ اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
یہاں تک پہنچنے کے بعد مگر احساس یہ بھی ہوا کہ اندھی نفرت اور عقیدت میں یہ تقسیم ہم صحافیوں ،خاص کر شام سات بجے سے رات 12بجے تک ٹی وی سکرینوں پر سیاپا فروشی کرتے اور پارسائی اور ایمانداری کے فروغ کو بے چین دکھتے اینکر خواتین وحضرات ہی نے تو بنائی ہے۔اپنے ہاتھوں کی لگائی گرہوں کو دانتوں سے کھولتے وقت جو تکلیف مجھے ہورہی ہے اس کا ذمہ دار ناظرین وقارئین کو کیوں ٹھہراﺅں۔ ان کے دلوں میں تعصبات کی آگ میں نے خود ہی تو جلائی اور بڑھکائی ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website