counter easy hit

شہررسول نگر سے بادشاہی مسجد میں تبرکات رسالت مآبؐ کا عمامہ ، ٹوپی ، جبّہ ، قدم پاک کا نقش ، اسلامی پرچم ، حضرت علی ( ع ) کا سپارہ ،حضرت بی بی فاطمہ( ع ) کا رومال ، جائے نماز حضرت امام حسین( ع ) کا عمامہ ، حضرت غوث الاعظمؒ کا عمامہ بھیجے گے ،راجہ رنجیت سنگھ اور انگریزوں کے مابین جنگ اسی مقام پر لڑی گئی، عالیشان بارہ دری عدم توجہ کا شکار

ISLAMIC, SACRED, MEMORABLE, SWORDS, AND, HAZRAT MUHAMMAD PBUH'S, TURBAN, IN, BADSHAHI, MOSQUE, AND, RASOOL NAGAR, CITY, ARE, DESERVE, MORE, ATTENTION, OF, AUTHORITES اسلام آباد ( تحریروتحقیق ؛اصغر علی مبارک سے ) شہررسول نگرپاکستانی پنجاب کا ایک تاریخی قصبہ جو گوجرانوالہ سے 28 میل مغرب میں دریائے چناب کے بائیں کنارے واقع پر ھےرسول نگر اس سڑک پر ہے جسے شیر شاہ سوری نے تعمیر کروایا تھا جو جموں سے جھنگ تک جاتی ہے۔ایک مقام پر یہ سڑک دریائے چناب سے ملتی ہے اور اسی جگہ کورسول نگر کے نام سے جانا جاتا ہے۔رسول نگر کی تاریخ بہت ہی جنگو جدل میں رہی کبھی یہ مسلمانوں کی حکومت میں رہی تو کبھی اس پر سکھ قابض رہے تو کبھی انگریزوں نے اس پر اپنی حکومت کی۔ خوبصورت قدرتی مناظر سے بھر پور اس جگہ کو برصیغر پاک و ھند میں کلیدی مقام حاصل ھے، شہررسول نگر میرا آبائی علاقہ ھے جہاں میرے آباؤ اجداد صدیوں سے آباد ھیں اور ھما را آبائی گھر رسول نگر کے تاریخی محلہ پٹھانوالہ میں الحمداللہ شاد باد ھے مجھے فخر ھے

ISLAMIC, SACRED, MEMORABLE, SWORDS, AND, HAZRAT MUHAMMAD PBUH'S, TURBAN, IN, BADSHAHI, MOSQUE, AND, RASOOL NAGAR, CITY, ARE, DESERVE, MORE, ATTENTION, OF, AUTHORITES

شہررسول نگر سے میرے آباؤ اجداد اور نامی گرامی شخصیات کا تعلق رھاھے جہنوں نے قیام پا کستان سے لیکر استحکام پاکستان تک کی تحریکوں میں کلیدی کردار ادا کیا شہررسول نگر لی تاریخی عزاداری شہداے کربلا کے حوالے سے بھی دنیا بھر میں جانا جاتا ھے آغاز یکم محرم کے شب کا جلوس اور دسویں محرم کے تعزیہ کے جلوس کی لائسینس داری اعزاز بھی ڈاکٹر مبارک علی فیملی کے پاس صدیوں سے ھےجسکا آغازبھی صدیوں پہلے ھوا برصیغر پاک و ھند کے نامور مصور و شا عر نذرعلی نظر ،شہید مظہر علی مبارک ،امام بخش ،جدی بخش حکیم نیاز علی ،ڈاکٹر مبارک علی و دیگر کا تعلق مبارک فمیلی سے ھے جبکہ برصیغر پاک و ھند کے نامور مصور و شا عر نذرعلی نظر کے شاگرد صادقین کے پاۓ کے آرٹسٹ مسعود عباس شاہ کا تعلق بھی رسولنگر سے تھا جو پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فائن آرٹ کے بانیوں میں سے ایک تھے بادشاہی مسجد کیلیے رسولنگر سے تبرکات گے ھیں ،ان تبرکات میں رسالت مآبؐ کا عمامہ ، ٹوپی ، جبّہ ، قدم پاک کا نقش ، اسلامی پرچم ، حضرت علی ( ع ) کا سپارہ جو خط کوفی میں ہے ۔ حضرت بی بی فاطمہ( ع ) کا رومال ، جائے نماز حضرت امام حسین( ع ) کا عمامہ ، حضرت غوث الاعظمؒ کا عمامہ اور جائے نماز کے علاوہ متعدد دیگر متبرک اشیاشامل ہیں ان تبرکات کی تاریخ سید محمد لطیف نے ’’تاریخ لاہور‘‘ میں لکھی ہے ۔

ISLAMIC, SACRED, MEMORABLE, SWORDS, AND, HAZRAT MUHAMMAD PBUH'S, TURBAN, IN, BADSHAHI, MOSQUE, AND, RASOOL NAGAR, CITY, ARE, DESERVE, MORE, ATTENTION, OF, AUTHORITES

جس کے مطابق جب 1401ء کو امیر تیمور نے دمشق فتح کیا تو وہاں سادات نے دیگر تحائف کے ساتھ چند نایاب اور متبرک اشیا بھی دیں جنہیں پا کر امیر بہت خوش ہوا ۔ 1402ء کو والی روم سلطان بایزید نے بھی اپنی شکست کے بعد کچھ تبرکات امیر کی نذر کیے ۔ امیر تیمور ان تبرکات کو ثمر قند لے گیا۔ امیر تیمور کی وفات کے بعد یہ تبرکات اس کے وارثوں کے قبضے میں رہے ۔ فتح ہند کے بعد شہنشاہ ظہیر الدین بابرتبرکات ہندوستان لے آیا پھر جب محمد شاہ کی ملکہ پر خستہ حالی کا دور آیا تو اس ملکہ نے یہ تبرکات پیر محمد اور شاہ محمد رضا کے ہاتھ 80 ہزار میں فروخت کر دیئے ۔ چنانچہ ان دونوں نے تبرکات آپس میں تقسیم کر لیے۔ تبرکات پیر محمد انیس رسول نگر اپنے علاقے پیر جھنڈے میں لے گیا ۔ رسول نگر پر مہاراجہ رنجیت سنگھ کے باپ سردار مہا سنگھ کے حملے سے یہ تبرکات بھی اس کے ہاتھ لگے ۔ 1769ء کو جب شاہ زمان کے حملے کی افواہ گرم ہوئی تو رنجیت سنگھ نے دوسرے قیمتی متاع و مال کے ساتھ یہ تبرکات اپنی رانی مہتاب کور کے حوالے کر دیئے جو اس نے اپنی ماں سداکور کو دے دیئے ۔ یہاں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا ۔

ISLAMIC, SACRED, MEMORABLE, SWORDS, AND, HAZRAT MUHAMMAD PBUH'S, TURBAN, IN, BADSHAHI, MOSQUE, AND, RASOOL NAGAR, CITY, ARE, DESERVE, MORE, ATTENTION, OF, AUTHORITES

ایک دن اچانک قلعے میں آگ لگ گئی سب کچھ جل کر راکھ ہو گیا لیکن تبرکات محفوظ رہے حالانکہ تبرکات کے نچلے کمرےمیں آتش گیر مادہ پڑا ہوا تھا اس کے بعد سے تبرکات کا احترام سکھوں میں بھی کیا جانے لگا ۔ شاہ زمان کابل چلا گیا تو رنجیت سنگھ نے اپنا سامان مائی سداکور سے مانگا ۔ اس نے تبرکات کے علاوہ سب کچھ لوٹا دیا ۔ مائی کی وفات کے بعد ان اشیا کا مالک شیر سنگھ بنا ۔ اس کی موت کے بعد اس کی جائیداد خالصہ سرکار کے قبضے میں آئی ۔ سردار ہیرا سنگھ نے انہیں اپنی حویلی میں رکھا ۔ جب وہ قتل ہو گیا تو تبرکات قلعہ لاہور میں آگئے ۔ انگریزی عہد میں تبرکات مسلمانوں کے حوالے کر دیئے گئے ۔
رسول نگرمیں رنجیت سنگھ کی تاریخی بارہ دری مویشیوں کا باڑا بن گئی ھے حویلی کی دیواروں پر گاۓ بھینسوں کے اوپلے لگے حکمرانو ں کی بےحسی کی مثال بن چکی ھیں ،اورنج ٹرین ،موٹر وے اور پنجاب میں ترقی کے دعویداروں کے لئے تاریخی عما رتو ں کی مناسب دیکھ بھال نہ کر مجرمانہ غفلت کے مرتکب ھو چکے ھیں ان تاریخی عما رتو ں،سیر گاہوں ،بارہ دریوں کو مناسبدیکھ بھال سے ھم سیاحت کو ترقی دیکر قیمتی زرمبادلہ حاصل کر سکتے ہیں جس سے پاکستان کا سافٹ امیج بھی اجاگر ھوگا رنجیت سنگھ کی تاریخی بھنگی توپ بھی یہیں سے بادشاہی مسجد لاہور لے جائی گئی متعلقہ اداروں کی لاپروائی کی وجہ سے رسول نگر جس کا پہلا نام رام نگر تھامیں قیمتی نو ا ردارات جو راجہ رنجیت سنگھ کی حویلی اور بارہ دری کا حصہ تھیں چوری ہو رہی ھیں راجہ رنجیت سنگھ نے اپنے اقتدار کے دور میں رسول نگر میں دریائے چناب کے کنارے پر رہائش اور بارہ دری بھی تعمیر کروائی تھی۔اس کی تعمیر کا آغاز1830میں کیا گیااور سات سال میں1837ء میں اسے مکمل کیا گیا۔

ISLAMIC, SACRED, MEMORABLE, SWORDS, AND, HAZRAT MUHAMMAD PBUH'S, TURBAN, IN, BADSHAHI, MOSQUE, AND, RASOOL NAGAR, CITY, ARE, DESERVE, MORE, ATTENTION, OF, AUTHORITES

راجہ رنجیت سنگھ اور انگریزوں کے مابین جنگ بھی اسی مقام پر لڑی گئی تھی جبکہ بھنگی توپ بھی رسول نگر سے ہی لے جائی گئی ہے ،بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ رسول نگر میں واقع بہت بڑے مندر سے زیر زمین راستہ بھی بنایا گیا تھا جوکہ مندرسے شروع ہوتا تھا اور بارہ دری میں نکلتا تھا ۔ قیام پاکستان کے بعد محکمہ اوقاف و متعلقہ اداروں کی سستی اور لاپروائی کی وجہ سے مندر کو کرایہ داری پر دے دیا گیا جس میں جانوروں کابھوسہ ،گھاس ودیگر سامان سٹاک کیا گیا 1982میں انگلینڈ سے ایک ٹیم رسول نگر پہنچی جس نے ان قبروں کی حالت درست کروائی،یہاں چاردیواری وغیرہ بنوائی اور ٹف ٹائلیں لگوائی گئیں۔جس کے بعد حکومت اور سرکاری محکموں کی عدم دلچسپی سے بارہ دری کے ساتھ ساتھ انگریزفوجیوں کی قبروں کے آثار مٹ رہے ہیں۔ قبروں سے ملحقہ زمینوں پر لگے مجموعی طور پر کروڑوں روپے مالیت کے سیکڑوں قیمتی درختوں کو چند ہی سالوں میں کاٹ لیا گیا جبکہ سرکاری ادارے اس بارے میں خاموش ہیں۔ یہاں امرود، آم، کینو،ِ مالٹے اور جامن کے درخت لگے ہوئے تھے تاہم سرکاری اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ ملی بھگت کرکے ان درختوں کو کاٹ لیا گیا اور ان یہاں گنتی کے چند درخت باقی ہیں اب راجہ رنجیت سنگھ کی دری میں کرایہ داروں نے مویشی باندھ رکھے ہیں جس سے مذکورہ عمارتیں بوسیدہ ہو گئی ہیں۔اور تو اوررسول نگرمیں سکھوں سے جنگ میں ہلاک 16 انگریز فوجیوں کی قبریں بھی مٹنے لگی ھیں.اس علاقے میں چٹھہ برادری کی ایک کثیر تعداد مقیم ہے جو رسول نگر کی ترقی و پسماندگی کی وجہ بھی بنی۔اس علاقے کی بنیاد نواب نور محمد چٹھہ نے 1732 میں ‘نورے دے کوٹ’سے رکھی۔نور محمدچٹھہ ،چٹھہ برادری کے سردار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بعید نظر شخص بھی تھے وہ اس علاقے کی اہمیت کو باخوبی سمجھتے تھے ساتھ ہی ساتھ سکھوں کی ابھرتی ہوئی طاقت سے بھی آگاہ تھے۔جھنڈا سنگھ نے مشہورِ زمانہ زم زمہ توپ جو کے اس نے بھنگی سکھوں سے جیتی تھی اس نے یہ توپ نواب نور محمد کے پاس امانتً رکھوا دی تھی۔جو بعد میں اس خطے کے لیے وبال بنی۔یہ توپ جس جگہ رکھی گئی وہ توپ والا دروازہ کہلوایا۔جس کا نشان آج بھی موجود ہیں۔
گوجرانوالہ میں سردار چڑت سنگھ اپنی حکومت کو توسیع دینے اور طاقت کو بڑھانے کے لیے نورے دے کوٹ کو ہتھیانا چاہتا تھا جس کی مد میں اس نے نورے دے کوٹ پر متعدد حملے کیے مگر نواب نور محمد نے کسی کو بھی اس خطے پر قدم رکھنے نہ دیا۔بل آخر سردار چڑت سنگھ نے دوستی کا ہاتھ بڑھایامگر اپنے وعدے کے وفاہونے سے پہلے ہی ایک جنگ میں اپنی ہی بندوق پھٹنے سے ہلاک ہو گیا۔اس واقعے کے بعد نواب نور محمد بھی اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔مورخین ان کی وفات کی تاریخ 1732 بتاتے ہیں۔اس کے بعد ان کے بیٹے پیر محمد چٹھہ نے حکومت سنبھالی اور جبکہ چڑت سنگھ کی وفات کے وقت اس کے بیٹے مہان سنگھ کے عمر میں چھوٹے ہونے کی وجہ سے اس کی والدہ ’دیسا ‘نے حکومت کے امور انجام دیے۔مہان سنگھ بھی اپنے والد کی طرح اس علاقے کی تاک میں رہا مگر پیر محمد چٹھہ نے ان کا جم کر مقابلہ کیا پیر محمد چٹھہ بھی اپنے والد کی طرح انسانیت کا درد دل میں رکھتے تھے انہوں نے اس علاقے کی خوب ترقی کی اور اس کا نام اپنے مرشد کے نام پر نورے دے کوٹ سے رسول نگر رکھ دیا۔

ISLAMIC, SACRED, MEMORABLE, SWORDS, AND, HAZRAT MUHAMMAD PBUH'S, TURBAN, IN, BADSHAHI, MOSQUE, AND, RASOOL NAGAR, CITY, ARE, DESERVE, MORE, ATTENTION, OF, AUTHORITES

انہوں نے رسول نگر میں کاروبار کو فروغ دیا رسول نگر سے ایشیا کے ہر کونے سے بیوپا ری خریدو فرخت کے لیے آتے یہاں ایک ٹمبر مارکیٹ ہوا کرتی تھی جس کی لکڑی بہت ہی عمدہ تصور کی جاتی تھی اس علاقے سے نمک کی تجارت بھی اپنے وقت میں پوری آب و تاب پر تھی اس وقت رسول نگر میں تقریباً 200 دوکانیں تھی آج بھی رسول نگر کے مٹر خاصی پہچان رکھتے ہیں اور مٹر کے موسم میں تقریباً 200 ٹرک روزانہ کی بنیاد پر ملک کے دوسرے حصوں میں پہنچائے جاتے ہیں۔اپنی زندگی میں پیر محمد چٹھہ نے جم کرمہان سنگھ کا مقابلہ کیا مگر ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور ان کی وفات فقیر محمد فقیر کے مطابق1776 میں ہوئی۔ان کے بعد ان کے غلام محمد چٹھہ نے چٹھہ ریاست کو سنبھالا جو کے پیر محمد چٹھہ کے بیٹے تھے۔غلام محمد چٹھہ بھی اپنے آباؤاجداد کی طرح بہادر اور علیٰ ظرف سیاستدان تھے۔انہوں نے اپنی ریاست کو جہلم تک توسیع دی او ر دفاعی نقطہ نظر سے رسول نگر کی جگہ سید نگر کو دارلخلافہ بنایا۔مہان سنگھ نے غلام محمد چٹھہ کے ارادوں کو بانپ لیا اور ابھرتی ہوئی طاقت کو کچلنے کے لیے اس نے سید نگر کا محاصرہ کر لیااور یہ محاصرہ تقریباً ایک سال تک رہا مہان سنگھ نے غلام محمد چٹھہ کو یہ پیغام بھجوایا کہ اگر وہ ہتھیار ڈال دے تو اس کی جان بخش دی جائے گی مگر غلام محمد چٹھہ نے لڑنے کو ترجیح دی اور ایک زور دار جنگ چھڑ گئی مگر مہان سنگھ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا (مورخین اس جنگ کی تاریخ 1777 بتاتے ہیں) مہان سنگھ نے دھوکے بازی سے شہر کی فصیل توڑ دی اور اندر داخل ہو گیا۔اس نے شہر میں قیامت برپا کر دی جس کے نتیجے میں غلام محمد چٹھہ کو سید نگر چھوڑ کر رسول نگر جانا پڑا۔مہان سنگھ کے ساتھی نے غلام محمد کے بیٹے کو پکڑ لیا جو کہ پیچھے رہ گیا تھا۔مہان سنگھ نے غلام محمد کے بیٹے کو آڑ بناتے ہوئے رسول نگر کا سودہ کرنا چاہا مگر وہ اس کے دغا میں نہیں آئے۔مہان سنگھ نے ایک اور چال چلی اور غلام محمد کے بیٹے کو آزاد کرتے ہوئے دوستی کا ہاتھ آگے بڑھایا اور ملنے کی دعوت دی وہ باپ دادا سے زیادہ بہادر اور سمجھدار شخص مہان سنگھ کے دغا میں آ گیا اور ملنے چلا گیا۔مہان سنگھ نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اسے قید کر لیاجس کے نتیجے میں مہان سنگھ نے رسول نگر پر قبضہ کر لیااور شہر میں تباہی مچا دی۔اس نے رسول نگر کا نام بدل کر رام نگر رکھ دیااور یوں رسول نگر پر سکھوں کی حکومت ہو گئی۔مہان سنگھ کے بعد راجارنجیت سنگھ نے حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی اس نے رام نگر کی ازسر نو تعمیر کروائی اس نے یہاں ایک باراں دری بنوائی اور ایک محل بھی تعمیر کروایا جس میں اس نے ایک مہارانی بھی رکھی اور محل کہ ارد گرد 7ایکڑ پر باغ تعمیر کروایا آج بھی وہ بارہ دری رسول نگر میں موجود ہے رسول نگر اسلحہ سازی میں خاصی مہارت رکھتا تھا اور ان لوگوں کو اس کام میں مکمل عبور حاصل تھا۔رنجیت سنگھ نے پورے پنجاب پر حکومت کی مگر اس کا محبوب علاقہ رسول نگر تھا۔

ISLAMIC, SACRED, MEMORABLE, SWORDS, AND, HAZRAT MUHAMMAD PBUH'S, TURBAN, IN, BADSHAHI, MOSQUE, AND, RASOOL NAGAR, CITY, ARE, DESERVE, MORE, ATTENTION, OF, AUTHORITES

 

اس نے اس علاقے میں مزید پکی سڑکیں بنوائی اور علاقے کی خوب ترقی کی یہ ترقی مزید جاری رہتی مگر رنجیت سنگھ کو موت نے آن گیرا اور ایک طویل علالت کی بعد اس کا انتقال ہو گیا مورخ اس کی وفات کی تاریخ 1839 تحریر کرتے ہیں۔اس کے بعد اس کے بیٹوں نے حکومت سنبھالی مگر وہ شراب نوشی کی زیادتی کی وجہ سے ایک کے بعد ایک وفات پاتے گئے ان کے آخری بیٹے دیلپ سنگھ تھے۔شیر سنگھ کے دور میں انگریزوں نے رام نگر کا محاصرہ کر لیا اور ایک زور دار جنگ چھڑ گئی مگر انگریزوں کو کامیابی نہ ملی جس کی وجہ دریا کا بیچ میں ہونا تھا۔شیر سنگھ نے بہت سے بیانات جاری کیے تھے جس میں خطے کے تمام سرداروں کو مل کر انگریزوں کے خلاف لڑنے کی اپیل کی مگر مسلمانوں نے اس کا مکمل طور پر انکار کیا ان کا خیال تھا کہ سکھوں کی بچی طاقت کو بھی ختم کیا جائے تاکہ مسلمان چین سے زندگی جی سکیں1848 میں ؔ لارڑ گونے وزیرآباد سے دریاچناب کو پار کیا اور یہ غیر فیصلہ کن جنگ جیت لی اور ان کا رام نگر پر مکمل قبضہ 28 دسمبر کو ہوااور اس طرح رام نگر انگریزوں کے قبضے میں آ گیا۔روحانیت کے کئی سلسلوں کے روحانی بزرگوں کے مزارات بھی یہاں موجود ھیں وطن عزیز پاکستان میں اسلام کی جتنی روشنی پھیلی ہوئی ہے یہ سب انہی بزرگوں کی کرامت ہے اور انہی روحانی پیشواؤں کی انتھک کوششو ں کا ثمر ہے ایسی ہی ایک ھستی سید سجاد علی شاہ المعروف با با گلاب شاہ موتیاں والی سچی سرکار ھیں جنکے ہاتھ پر سینکڑوں مسلمان ھووے با با گلاب شاہ موتیاں والی سچی سرکار کا سالانہ عرس اور میلے کی تقریبات اٹھائیس جیٹھ کو رسولنگر میں ہر سال گندم کی کٹائی پر منعقد کی جاتی ھیں

ISLAMIC, SACRED, MEMORABLE, SWORDS, AND, HAZRAT MUHAMMAD PBUH'S, TURBAN, IN, BADSHAHI, MOSQUE, AND, RASOOL NAGAR, CITY, ARE, DESERVE, MORE, ATTENTION, OF, AUTHORITES

جس میں پاکستان کے علاوہ دنیا بھر سے عقیدت میں آتے ہیں ، شہر رسول نگر میںسید سجاد علی شاہ العروف بابا گلاب شاہ کےعلاوہ حضرت شیخ پھلے شاہ رسولنگری بیت طریقیت کا مزار بھی رسولنگر کے مغربی گورستان میں ھے اور یہ گورستان ”قبرستان پھلے شاہ ” سے مشہور ھے ، رسول نگر کوایک قصبہ ہونے کے باوجود شہر کا رتبہ صدیوں پہلے سے حاصل رہا.کھیوڑہ سے نمک کی منڈی تجارت بھی برصیغر پاک و ھند میں رسول نگر سے ھوتی تھی اور تاریخی منڈی آج بھی قائم ھے ہے۔ اس علاقہ سے برصیغر پاک و ھند میں دریائی تجارت افغانستان ،ایران اور وسطحی ایشیا سے کی جاتی تھی شہررسول نگرکو نور محمد چھٹہ نے سترھویں صدی عیسوی میں آباد کیا۔ جبکہ سکھوں اور انگریزوں کی آخری لڑائی بھی 1849ء میں یہاں ہی لڑی گئی۔ سکھوں سے لڑا ئی میں بر طا نو ی فو ج کے 4 جنر ل 2بر یگیڈیئر اور 2کرنل ہلا ک ہو ئے ،جن کی عمودی قبریں بھی آج بھی اصل حالت میں موجود ھیں مہا راجہ رنجیت سنگھ کو پنجا ب میں سکھ سلطنت کا با نی تسلیم کیا جاتا ھے جس کی زندگی کا بیشتر حصہ رسول نگر میں گزرہ اور مہا راجہ رنجیت سنگھ اپنے تمام تر فیصلے رسول نگر میں ہی کرتا تھا ۔ مہا راجہ رنجیت سنگھ کا انگریز سرکار سے تاریخی معائدہ بھی اسی مقام پر طے پایا جسکے تحت پنجا ب ”میں اس کا اقتدار 1799تا 1849تک رہا ۔ مہا راجہ رنجیت سنگھ نے 1822میں در یائے چناب کے کنارے شہر رسول نگر سے 2کلو میٹر مشر ق کی جانب اپنے دور کی خو بصور ت تر ین با ر ہ در ی بھی تعمیر کروائی جبکہ 25ایکڑپر پھلوں کے با غا ت اور 64کنا ل کی چار دیو ا ر ی کے علا و ہ در یا ئے چنا ب میں اتر نے کیلئے زیر زمین سر نگ تعمیر کی جس میں اس کے اہل خانہ نہانے اور سیر کیلئے اتر تے تھے ۔ خو بصور ت تر ین اس با ر ہ در ی کے با ر ہ درو ا ز ےبھی بنائے گئے

ISLAMIC, SACRED, MEMORABLE, SWORDS, AND, HAZRAT MUHAMMAD PBUH'S, TURBAN, IN, BADSHAHI, MOSQUE, AND, RASOOL NAGAR, CITY, ARE, DESERVE, MORE, ATTENTION, OF, AUTHORITES

جو چاروں اطر ا ف سے آنے جانے کیلئے تھے اس با ر ہ د ر ی سے شہر رسول نگر تک 2کلو میٹر زیر زمین سر نگ بنا ئی گئی جو رنجیت سنگھ کے محل سے خواتین با ر ہ دری تک آ نے کیلئے استعما ل کر تی تھیں ۔ مہا راجہ رنجیت سنگھ ہر سا ل کئی ما ہ تک اس با ر ہ در ی میں قیا م کر تا تھا۔ اسی مقام پر چند فٹ کے فاصلے پر خالصہ فو ج اور بر طا نو ی فو ج کے در میان لڑا ئی میں بر طا نو ی فو ج کے 4 جنر ل 2بر یگیڈیئر اور 2کرنل جنر ل چا ر لس را بر ٹ ، لا ر ڈ کو چ ، ویلیم ہیو لاک ، بر یگیڈیئر سی آ ر کریٹو ن کی قبر یں تاحال محفو ظ ہیں اس جنگ میں انگر یز آ ر می کے 16آ فیسر ز ہلاک 64زخمی اور 14لا پتہ ہو ئے تھے سکھو ں کی مڑیاں بھی مو جو یہاں رنجیت سنگھ کی ایک بارہ دری موجود ہے۔ دریاۓ چناب کنارے آباد رسولنگر صحت افزا مقام رہا ھے اسی لئےرنجیت سنگھ تمام گرمیاں یہیں گزارتا تھا۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کو سکھ دھرم اور پنجاب کی تاریخ میں انتہائی خاصمقام حاصل ہے۔ سکھ دھرم کے بانی گرونانک جی نے تمام عمر طبقات تقسیم کے خلاف گزاری، دھرتی پر آئے تمام انسان انکے نزدیک برابر ہیں بانی گرونانک جی اس فلسفے کا پرچار کرتے رہے۔

ISLAMIC, SACRED, MEMORABLE, SWORDS, AND, HAZRAT MUHAMMAD PBUH'S, TURBAN, IN, BADSHAHI, MOSQUE, AND, RASOOL NAGAR, CITY, ARE, DESERVE, MORE, ATTENTION, OF, AUTHORITIES

بانی گرونانک جی نے جس تحریک کا آغاز کیا اس کا اختتام رنجیت سنگھ کی حکومت کی شکل میں ہوا۔گرونانک جی نے 1539ء میں انتقال کیا۔ مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں میں یکساں مقبول گرونانک جی، ان کے ہاتھوں جنم لی ہوئی تحریک کی شکل تین سو برسوں میں یکسر تبدیل ہوکر رہ گئی۔ سرکار، قلعے، راجواڑے، حویلیاں، دمن دولت یہ تمام خاصیتیں کسی بھی طور پر خالصہ تحریک سے میل نہیں کھاتیں۔ گرو جی کی زندگی کا ہر پل ان کی نفی میں گزرا تھا۔ اسی حوالے سے اقتباس ڈاکٹر مبارک علی کی تقریر میں سے درج کیا جا رہا ہے جو انہوں نے 17 مارچ 2002ء کو نیشنل کالج آف آرٹس لاہور میں ہونے والی ایک کانفرنس میں کی تھی اور جس کا موضوع تھا ’’پنجاب اور سکھ تاریخ‘‘ ۔’’پنجاب میں گرونانک (وفات 1539ء) کی تعلیمات اقتدار کے جدوجہد یا حصول کے لیے نہیں تھیں۔ وہ حکومت اور حکمران طبقوں سے ناخوش تھے۔ پنجاب میں سیاسی طور پر جو بدامنی تھی، اس کا شکار یہاں کے عام لوگ ہو رہے تھے، غیر مسلموں سے جزیہ لینا، زیارت گاہوں پر ٹیکس لگانا، زمیندار اور مقدموں کا اپنی رعیت کا استحصال کرنا، اس نے سیاسی طور پر اس عہد کو ’’کلیوگ‘‘ بنا دیا۔ لہٰذا ان کی تعلیمات سے جو متاثر ہوئے ان میں کھتری ذات کے لوگ تھے کہ جو تجارت وکاروبار کے پیشوں کو اپنائے ہوئے تھے۔ اس کے بعد دستکار و ہنرمند و کاریگر تھے۔ اور پھر جاٹ لوگ کہ جو کاشتکاری و زراعت میں مشغول تھے۔مہاراشٹر کے برعکس جہاں دولت مند اور طاقتور طبقوں نے بھگتی تحریک کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ پنجاب میں نانک کے ماننے والے کمزور طبقے تھے۔

ISLAMIC, SACRED, MEMORABLE, SWORDS, AND, HAZRAT MUHAMMAD PBUH'S, TURBAN, IN, BADSHAHI, MOSQUE, AND, RASOOL NAGAR, CITY, ARE, DESERVE, MORE, ATTENTION, OF, AUTHORITIES

اس لیے انہوں نے مسلح جدوجہد کے بجائے امن و آشتی اور رواداری کی بات کی کہ جس کے سہارے یہ لوگ ظلم و استحصال کو برداشت کرسکیں۔ لیکن یہ ضرور کیا کہ ذات پات کی قیود توڑ کر اور مہنگی رسومات سے ان کو چھٹکارا دلایا تاکہ وہ سماجی اور معاشی طور پر آزاد ہوسکیں اور ان میں مساوات بھی قائم ہوسکے۔‘‘گرونانک کے وقت سے چلی لہر ان کے بعد میں آئے دس گرووں کے ہاتھوں سے ہوتی کئی کہانیاں اپنے اندر سموئے بیٹھی ہے۔ تعلیمات کا سلسلہ اٹھارہویں صدی عیسوی کے آخری برسوں تک چلتا رہا۔ انہی دنوں میں رنجیت سنگھ کا جنم ہوا۔ مؤرخین کے ایک گروہ کا یہ ماننا ہے کہرنجیت سنگھ جٹ (گوت) قبیلے میں پیدا ہوا جبکہ دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہرنجیت سنگھ سانسی (گوت) قبیلے میں پیدا ہوا۔ دوسری روایت زیادہ مستند نظر آتی ہے۔ کیوں کہ سانسی لوگ ہر قسم کا جانور زندہ یا مردہ کھالیتے ہیں۔ ایسے جانور کتے، بلیاں، چوہے، سانپ وغیرہ۔ بھی جوعام لوگ نہیں کھاتے کھالیتے ہیں،رنجیت سنگھ کے آباؤ اجداد سکھوں کی بارہویں مثل ’’سکرچکیوں‘‘ میں سے تھے۔ اس مثل کی بنیاد سردار جڑت سنگھ نے رکھی تھی جوکہ سکرچک میں رہتا تھا۔ اس کے باپ کا نودھا قوم جاٹ اور گوت سانسی تھی۔ اس قبیلے کے افراد زیادہ گوجرانوالہ (رسولنگر ) کے رہنے والے تھے۔

ISLAMIC, SACRED, MEMORABLE, SWORDS, AND, HAZRAT MUHAMMAD PBUH'S, TURBAN, IN, BADSHAHI, MOSQUE, AND, RASOOL NAGAR, CITY, ARE, DESERVE, MORE, ATTENTION, OF, AUTHORITIES

جن کی زندگی انتہائی برے حالات میں تھی۔ اکثریت افراد کا گزارہ زراعت پر تھا۔ اس مثل کا پہلا معروف نام بدھ سنگھ ڈاکو کا ہے۔ تقسیم سے قبل تک بدھ سنگھ اوراس کی گھوڑی ’’دیساں‘‘ کی کہانیاں دیہاتوں میں عام تھیں۔ وہ اپنی گھوڑی پر جہلم، راوی اور چناب کو پچاس میل تک تیر کر پار کرلیتا تھا۔بدھ سنگھ پہلا شخص تھا جوکہ گروگوبند جی کے ہاتھوں خالصہ ہوا تھا۔ بدھ سنگھ کی موت بھی افسانوی تھی۔ جس کے ساتھ ہزارہا کہانیاں منسوب ہیں۔ بدھ سنگھ کے بعد نودھ سنگھ نے ایک جتھا بنالیا اور افغان پٹھانوں سے لڑائی کے بعد راوی اور جہلم کے درمیان حصے میں کچھ علاقے اپنے قبضے میں کرلیے۔ نودھ سنگھ کے نام کے ساتھ سکر چکیہ مشہور ہوگیا۔ اس کے عہد میں سکر چکیہ ایک طاقتور مثل بن گئی۔اس تمام عرصے میں افغان پٹھانوں کے ساتھ لڑائیاں جاری رہیں۔ ان لڑائیوں میں 1752ء کو نودھ سنگھ مارا گیا۔ اس کے چار بیٹوں میں سب سے بڑا چارہت سنگھ تھا جس نے اپنی سرکار کو سکرچک سے اٹھا کر گوجرانوالہ منتقل کردیا۔ اس کی بھی تمام زندگی پٹھانوں اور دیگر سکھ مثلوں کے ساتھ لڑای میں گزرگئی۔ اکثر لڑائیوں میں اس نے شکست کھائی اور پھر ایک لڑائی میں اپنی ہی توڑے دار بندوق پھٹنے سے مارا گیا۔اس کے بعد اس کے جتھے کی باگ دوڑ اس کے بیٹے مہاسنگھ کے ہاتھ آئی۔ جس کی شادی جند کے سردار، سردار گجیت سنگھ کی بیٹی سے ہوئی۔ جس کا اصل نام راج کور تھا اور وہ سکھوں میں مائی ملوائن کے نام سے جانی جاتی ہے۔ مہاسنگھ کے گھر ہی رنجیت سنگھ کا جنم ہوا۔ مہاسنگھ کی زندگی اور رنجیت سنگھ کے ابتدائی ایام کے حوالے سے اقتباس خوشونت سنگھ کی کتاب ’’رنجیت سنگھ‘‘ (ص۔22) سے درج ذیل ہے۔’’چارہت سنگھ کا بیالیس سالہ بیٹا مہاسنگھ اپنے باپ ہی کی طرح نہایت دلیر جنگجو تھا۔ مہاسنگھ نے جند کے سردار گجیت سنگھ کی بیٹی سے شادی کی تھی۔ اس کے بعد مثل داروں میں مہاسنگھ کی حیثیت بہت مضبوط ہوگئی تھی۔ گوجرانوالہ کی فصیل کے اندر مہاسنگھ نے ایک قلعہ تعمیر کروایا جس کا نام مہاسنگھ نے اپنے نام پر گڑھی مہاسنگھ رکھا۔ مہاسنگھ نے اپنی فوج میں بھی اضافہ کیا۔ اس کے بعد شہسواروں کی تعداد 6000 ہوگئی اور مہاسنگھ نے اپنے آباؤ اجداد کے مقبوضہ علاقوں پر دوبارہ تسلط قائم کیا۔مہاسنگھ نے رسول نگر کو ایک مسلمان قبیلے چٹھہ سے چھین لیا۔

ISLAMIC, SACRED, MEMORABLE, SWORDS, AND, HAZRAT MUHAMMAD PBUH'S, TURBAN, IN, BADSHAHI, MOSQUE, AND, RASOOL NAGAR, CITY, ARE, DESERVE, MORE, ATTENTION, OF, AUTHORITIES

مہاسنگھ علی پور، پنڈی بھٹیاں، ساہیوال، عیسیٰ خیل اور سیالکوٹ پر قابض ہوگیا۔ اس کے بعد مہاسنگھ اپنے باپ کی طرح جموں کی طرف بڑھا۔ جموں کا ہندو ڈوگرا حکمران اس دولت مند شہر کو بے رحم سکرچاکیوں کا نشانہ بننے کے لیے چھوڑ کر فرار ہوگیا۔ مہاسنگھ نے جموں کو فتح کرکے سکرچاکیہ مثل کو نسبتاً گمنامی سے نکال کر نمایاں ترین مقام پر پہنچا دیا۔ کہنیا جوکہ بھنگیوں کی جگہ سب سے طاقتور مثل بن گئے تھے، جموں پر قبضہ کرنے کے لیے مہاسنگھ سے نبردآزما ہوگئے۔ دونوں مثلوں میں متعدد مرتبہ لڑائیاں ہوئیں۔ ایک لڑائی میں کہنیاؤں کے سردار کا اکلوتا بیٹا گربخش سنگھ ہلاک ہوگیا۔ اب کہنیا سردار کا فخر مٹ چکا تھا۔ اس نے اطاعت قبول کی اور اپنی سب سے بڑی بیٹی مہتاب کور کی شادی مہاسنگھ کے بیٹے رنجیت سنگھ سے کردی۔ کہنیا سردار تھوڑے عرصے بعد فوت ہوگیا۔ اس کے مقبوضہ علاقوں کی باگ ڈور اس کی بیوہ سداکور کے ہاتھ آگئی۔‘‘رنجیت سنگھ کی پیدائش کے بارے میں خوشونت سنگھ نے اپنی کتاب ’’رنجیت سنگھ‘‘ (ص۔23) پر کچھ اس طرح تحریر کیا ہے۔’’رنجیت سنگھ 13 نومبر 1780ء کو منگل کے دن پیدا ہوا۔ قیاس ہے کہ اس کی پیدائش رسولنگر سے بیس میل دور گوجرانوالہ میں ہوئی تھی۔ رنجیت سنگھ کی پیدائش کی تاریخ اور مقام کے حوالے سے اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ گوجرانوالہ میں دو کمروں والے ایک پرانے مکان پر دو تختیاں نصب ہیں۔ ایک کمرے کے باہر نصب تختی پر لکھا گیا ہے کہ یہاں رنجیت سنگھ 2 نومبر 1780ء کو پیدا ہوا تھا۔ میک گریگور، گریفن، پریم سنگھ اور ڈاکٹر گنڈا سنگھ سمیت بہت سے تاریخ دان اب گوجرانوالہ کو رنجیت سنگھ کی جائے پیدائش تسلیم کرتے ہیں۔ تاہم 13 نومبر 1780ء ہی کو اس کی مصدقہ تاریخ پیدائش مانا جاتا ہے۔ بعض مؤرخ کہتے ہیں کہ رنجیت سنگھ ایک چھوٹے عسکری شہر بدرکھان میں پیدا ہوا تھا جو سندھ کے قریب واقع ہے اور رنجیت سنگھ کی ماں راج کور کا تعلق اسی شہر سے تھا۔ راج کور جند کے راجہ گجپت سنگھ کی بیٹی تھی۔ اسے اپنے شوہر کے گھرانے میں مائی ملوائن یعنی مالوہ کی خاتون کہا جاتا تھا۔ مؤرخوں کا کہنا ہے کہ روایت کے مطابق اس کے پہلے بچے کی پیدائش اس کے میکے میں ہوئی تھی۔ بچہ پیدا ہوا تو اس کا نام بدھ سنگھ رکھا گیا۔ جب مہاسنگھ کو اپنے ہاں بیٹا پیدا ہونے کی خوش خبری ملی تو اس وقت وہ چٹھوں کو دریائے جہلم کے قریب ایک معرکے میں شکست دے کر واپس آرہا تھا۔ اس نے اپنے بیٹے کا نام بدھ سنگھ۔۔۔۔ یعنی ذہین انسان۔۔۔۔ کی بجائے رنجیت سنگھ۔۔۔ یعنی میدان جنگ میں فاتح۔۔ رکھا۔ یہ ایک طرح سے بچے کے مستقبل کی پیش گوئی تھی۔ رنجیت سنگھ بالکل ان پڑھ رہا۔ لیکن اس نے بیشتر جنگوں میں فتح پائی۔‘‘بچپن ہی میں رنجیت سنگھ کی بائیں آنکھ چیچک کے باعث ضائع ہوگئی۔ وہ ابھی محض بارہ برس کا نو عمر لڑکا تھا کہ اسے اپنے باپ کے بعد اپنی مثل کا سردار بنا دیا گیا۔ تیرہ برس کی عمر میں حشمت خاں نامی ایک طاقتور سردار کو جنگل میں قتل کیا۔ رنجیت سنگھ کی زندگی میں خواتین کا ایک گہرا اثر رہا۔ اس کی پہلی شادی مہتاب کور کے ساتھ ہوئی جس کا باپ رنجیت سنگھ کے باپ کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ رنجیت سنگھ کی ساس سدا کور کا رنجیت سنگھ کی تمام کامیابیوں کے پیچھے ایک گہرا ہاتھ تھا۔روایات میں یہ بات بھی ملتی ہے کہ سدا کور کے کہنے ہی پر رنجیت سنگھ نے اپنی سگی ماں کا اپنے ہاتھ سے قتل کیا اور دیوان لکھپت رائے کو بھی ایک سازش کے تحت مروایا گیا۔ دیوان لکھپت رائے اور مائی ملوائن کے بارے میں اب تک کئی کہانیاں لوگوں کی زبان پر ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رنجیت سنگھ نے دوسری مثلوں کو اپنے ساتھ ملایا اور کچھ پر طاقت کے زور سے قبضہ کرلیا۔رنجیت سنگھ نے 1799ء میں بھنگی مثل کو لاہور جاکر شکست دی۔ اس وقت لاہور پر سرحاکمان گوجر سنگھ، لہنا سنگھ اور سوبھا سنگھ کی حکومت تھی۔ اس وقت لاہور کے تمام دروازوں کو پکی اینٹوں کے ساتھ بند کردیا گیا تھا۔ صرف تین دروازے دہلی، روشنائی اور لوہاری کھلے تھے۔ رنجیت سنگھ نے لوہاری دروازے کے محافظ محکم دین کو ساتھ ملایا اور دیگر درباریوں نے دھوکے سے فوج کو دہلی دروازے کی جانب بھیج دیا اور رنجیت سنگھ نے باآسانی لوہاری دروازے سے داخل ہوکر شہر پر قبضہ کرلیا۔12 اپریل 1801ء میں تمام پنجاب پر سکھ سرکار بن گئی اور پنجاب پر سکھ حکومت رنجیت سنگھ کے آخری سانس تک جاری رہی۔ اس وقت پنجاب کی حدود ستلج سے جہلم تک کے وسیع علاقے تک پھیل چکی تھیں۔ ان ہی برسوں میں ایسٹ انڈیا کمپنی پنجاب کے علاوہ ہندوستان کے کم و بیش تمام علاقوں پر بلاواسطہ اور بالواسطہ سرکار قائم کرچکی تھی۔ کمپنی کی حکومت کو سکھوں کی بڑھتی طاقت اور دوسری جانب افغان حملہ آوروں کے حملوں کی بھی مکمل سمجھ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ دونوں حکومتیں وقتاً فوقتاً ایک دوسرے کے ساتھ معاہدے کرتی رہیں۔1839ء میں رنجیت سنگھ نے وفات پائی تو 1844ء سے 1849ء تک کے عرصہ میں انگریز پورے پنجاب پر مکمل قبضہ حاصل کرچکے تھے۔ رنجیت سنگھ کی تمام عمر میدان جنگ اور خواتین کی سنگت میں گزری اور اس کے ساتھ ساتھ لاتعداد کہانیاں بھی جنم لیتی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی زندگی اور اس کے بعد بھی کئی کتب تحریر ہوئیں۔ شاہ شجاع سے کوہ نور ہیرے کا لینا، آٹھ بیٹوں کا باپ ہونا، لیکن صرف دو بیٹے حقیقی تسلیم کیے گئے۔ جن کے نام کھڑک سنگھ اور دلیب سنگھ تھے۔ باقی چھ بیٹوں کے نام ایشر سنگھ، پشودا سنگھ، تارا سنگھ، شیر سنگھ، ملتانہ سنگھ اور کشمیرا سنگھ تھے۔ اب کچھ تذکرہ رنجیت سنگھ کی سمادھ کی بھی کر تے ہیں۔سمادھ کا تذکرہ کنہیا لال ہندی نے اپنی کتاب تاریخ لاہور (ص۔227) پر اس طرح کیا ہے۔ ’’یہ عالی شان مکان سمادھ کا روشنائی دروازے سے باہر، فصیل کے ملحق، دیوادبہ دیوار مسجد بادشاہی کے بہ جانب شمال واقع ہے۔ دروازہ آمدورفت مشرق کی سمت کو ہے۔ دیوار مشرقی اس مکان کی پختہ ریختہ کار ہے۔ خاص دروازے کے نیچے اوپر اور راست و چپ بہت سی دیوار سنگ سرخ کی بنی ہے۔ پانچ زینے چڑھ کر دروازے میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ زینہ اور چوکھٹ بھی سنگ سرخ کی بنی ہے۔ دروازہ عالی شان مقطع تھڑے دار بنا ہوا ہے اوپر دروازے کے تین مورتیں منوتی شوجی و گنیش جی و برہما کی پتھر میں بناکر نصب کی گئی ہیں۔ اس مشرقی دیوار کی پہلی منزل میں جو حجرے ہیں ان میں دکاندار دکان کرتے ہیں اور اوپر کی منزل کی نشست گاہوں کے اس طرف دریچے و بخارچے ہیں۔ ان کی چوکھٹیں بھی سنگ سرخ کی ہیں اوردروازے چوبی۔دروازے سے داخل ہوکر ڈیوڑھی کے شمال کی سمت زینہ سنگ سرخ کا اوپر جانے کے لیے اور جنوبی کی سمت ایک کوٹھری اور ایک زینہ قالبوتی خشتی بنا ہے۔ یہ زینہ اوپر صحن میں جاکر کھلتا ہے اور سنگین چوکھٹ لگی ہے۔ اس دروازے کے جنوب و شمال نشست گاہیں بنی ہیں جس کے دروازے تو صحن کی سمت ہیں اور دریچے باہر کی سمت نہایت مقطع و سنگین ہیں۔ انہی مکانات میں سے ایک میں سنگ مرمر کی بن دیوی کی نہایت ادب کے ساتھ رکھی ہے۔ دیوی جی کا تخت اور بنگلہ سنگ مر مر کا ہے۔ بنگلے کی چھت بھی سنگ مر مر کے ایک تختے کی ہے۔یہ بنگلہ نہایت خوبصورت قابل دید ہے۔ جس کے دیکھنے سے طبیعت میں فرحت آتی ہے۔ دیوی جی کی سواری سنگ مر مر کے شیر پر ہے۔ یہ تصویر دیوی جی کی رانی جنداں والدہ مہاراجہ دلیپ سنگھ کے پاس مثمن برج میں رکھی ہے۔ جب اس کو جلا وطن کیا گیا تو اس نے سمادھ پر مورت بجھوا دی، تب سے اسی جگہ پر رکھی ہے اور پجاری علیحدہ مقرر ہے۔دیوی جی کے مکان کے مماذی صحن کا فاصلہ چھوڑ کر زینہ سمادھ ہے۔ یہ عالیشان سمادھ ایک عالیشان چبوترے پر ہے جس کا ارتضاع پانچ فٹ کے قریب ہوگا۔ جانب مشرق وسط میں چبوترے کی سیڑھی ہے۔ چبوترے کے سر پر سنگ مر مر کی سلیں بہ سمت مشرق و شمال لگائی گئی ہیں۔ مگر جنوب اور غرب کی سمت خشتی بند لگایا گیا ہے۔ اس چبوترے کے نیچے کا مکان بطور تہہ خانے کے پولا ہے۔ چبوترے کے وسط میں لاثانی مکان سمادھ کا بنا ہے۔ جس کے تین تین دروازے چاروں طرف رکھے ہوئے ہیں۔ ہر ایک دروازے کی چوکھٹ سنگ مرمر کی اور جوڑیاں چوبی ہیں۔ ان تینوں میں سے ہر ایک درمیانی دروازہ کلاں اور بغلوں کے چھوٹے ہیں۔ مشرقی دروازہ درمیانی آمدورفت کے لیے کھلا رہتا ہے۔اس دروازے کا زینہ سنگ مرمر کا ہے اور دروازے کے آگے ایک سیاہ پتھر کی بڑی سل نصب ہے۔ اس دروازے کے اندر جائیں تو بڑا وسیع مکان مسقف آتا ہے۔ اس کے وسط میں ایک بارہ دری عالیشان اس بارہ دری کے آٹھ ستون سنگ مرمر کے تھے۔ اس بارہ دری کی عمارت نہایت عمدہ منقش و مطلا ہے اور وسط میں ایک عالیشان بنگلہ سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے جس کے چار در ہیں۔ دروں کے ستون وغیرہ متعلقہ سنگ مرمر کے ہیں مگر اوپر کا گنبد خشتی ہے۔ اس بنگلے کا گنبد بڑے گنبد کے نیچے نہایت خوبصورت معلوم ہوتا ہے۔ بنگلے کے بیچ میں ایک چبوترہ سنگ مر مر کا، اس پر سمادھ سنگین مہاراجہ رنجیت سنگھ کی، وسط میں بنی ہوئی اور گیارہ سمادھیں اور گیارہ رانیوں کی ہیں جو مہاراجہ کے ساتھ ستی ہوئی تھیں اور دو سمادھ ان دو کبوتروں کی ہیں جو بہ وقت داغ دینے کے نعش کے چتا کے اندر اڑتے ہوئے آپڑے تھے اور مہاراجہ کی نعش کے ساتھ ہی جل گئے تھے۔‘‘خوشنونت سنگھ نے اپنی کتاب ’’مہاراجہ رنجیت سنگھ‘‘ (ص۔255) پر رنجیت سنگھ کی آخری رسومات کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا۔’’اگلے دن مہاراجہ کی لاش کو گنگا جل سے نہلایا گیا۔ اسے بحری جہاز کی شکل کی صندل کی لکڑی کی چتا پر لٹا دیا گیا۔ اس جہاز کے بادبان ریشم اور مخمل کے بنائے گئے تھے۔ وزیروں اور درباریوں نے چتا پر شالیں ڈال کر اپنی عقیدت کا آخری مرتبہ اظہار کیا۔ ستی ہونے والی چار رانیوں اور سات ملازماؤں سمیت جنازہ قلعے سے روانہ ہوا۔ انہوں نے شادی کا لباس اور زیورات پہنے ہوئے تھے۔ وہ وقفے وقفے سے اپنی کوئی چوڑی، کڑا یا کوئی زیور توڑ کر فقیروں کے ہجوم میں اچھال دیتی تھیں یا مقدس گیت گانے والے برہمنوں میں سے کسی کو دے دیتی تھیں۔ جنازہ شہر کی تنگ گلیوں میں سے گزرا، جو روتے ہوئے لوگوں سے بھری ہوئی تھیں۔‘‘رنجیت سنگھ کی موت کے بعد اس کی عظیم الشان سمادھ کی عمارت کی بنیاد اس کے بیٹے کھڑک سنگھ نے رکھی۔ سمادھ کی تعمیر کیلئے سنگ مر مر اور دوسرا قیمتی پتھر ہندوستان کی مختلف جگہوں سے منگوایا گیا۔ کھڑک سنگھ کی ایک برس کے اندر موت واقع ہوگئی۔ اس کے بعد سمادھ کی تعمیر مہاراجہ شیرسنگھ کے وقت میں بھی جاری رہی۔ اس دوران سکھ سرداروں کی انگریزوں کے ساتھ جھڑپیں جاری رہیں۔ جس کے باعث تعمیر کا سلسلہ مسلسل نہ رہا۔ اس عمارت کی تعمیر انگریز سرکار کے عہد میں ہوئی۔ سمادھ کی عمارت جوکہ بادشاہی مسجد اور پرانے روشنائی دروازے کے ساتھ ملحقہ ہے۔عمارت میں داخل ہوتے ہی گرو ارجن دیو جی کی سمادھ اور گردوارہ ہے جس کے باعث یہ تمام جگہ ڈیرہ صاحب کہلاتی ہے۔ تقسیم تک اس گردوارے میں پوجا پاٹھ اپنے روایتی طریقے سے جاری رہی۔ قلعہ لاہور کی مشرقی سیدھ میں تمام راستوں کے ساتھ حفاظتی جنگلے نصب کردیئے گئے ہیں۔ قلعہ کی جانب سے آتی گھاٹی کی مغربی سیدھ میں سمادھ کا داخلی دروازہ ہے۔ دروازے سے بائیں جانب گرو ارجن کی سمادھ ہے۔ جس کے ساتھ کبھی پرانے گردوارے کی عمارت بھی تھی۔ اس تمام جگہ کو ازسرنو تعمیر کیا جارہا ہے۔ اس جگہ سے مغربی سیدھ میں زمینی منزل پر کمروں میں سرکاری دفاتر موجود ہیں۔ ان سے اوپر کی منزل پر مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھ ہے۔
سیڑھیاں چڑھ کر سامنے کھلے صحن میں سکھ دھرم کے خاص دھرمک رنگ ’’جوگیارنگ‘‘ میں ایک جھنڈا دکھائی دیتا ہے جس کو ’’کھنڈا صاحب‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ مشرقی سیدھ میں کچھ پرانے کمرے ہیں۔ جن میں گردوارے کا نظم و نسق کرنے والوں کے دفاتر ہیں۔ اس کی جنوب سیدھ میں مغل عہد کا روشنائی دروازہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی مشرقی سیدھ میں خاص سمادھ کا داخلی دروازہ ہے جس پر رنجیت سنگھ کی تصاویر بنائی گئی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان تصاویر کی حالت بھی انتہائی مخدوش ہے۔ اس کے اوپر خاص سکھی طرز تعمیر کا گنبد ہے۔ تمام عمارت سفید اور جوگیارنگ سے مزین ہے۔اس کی دیوار پر جگہ جگہ کبوتروں کے گھونسلے دکھائی دیتے ہیں اور فرش پر بھی کبوتروں کا دانا اور کبوتر نظر آتے ہیں۔ زمینی منزل پر تعمیر ہونے والے گردوارے کو وقتی طور پر رنجیت سنگھ کی سمادھ میں منتقل کردیا گیا ہے۔ سمادھ میں داخلے کے لیے احتراماً دروازے کے باہر ایک چھوٹا سا تالاب تعمیرکردیا گیا ہے۔ جس میں سے گزر کر سمادھ میں داخل ہوا جاتا ہے۔ پیر تالاب کے پانی سے دھل جاتے ہیں اور جرابیں پہننے کی اجازت بھی نہیں۔ آمدورفت کے لیے مشرقی سیدھ کا دروازہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے دروازے تینوں سیدھوں میں ہیں۔ دروازہ کلاں کے ساتھ ساتھ دائیں اور بائیں جانب فرد دروازے بھی ہیں۔سمادھ کے اندر آتے ہی ایک بار شیش محل قلعہ لاہور کا گمان ہوتا ہے۔ سقف اور دیواروں پر شیشے کا خوبصورت کام دکھائی دیتا ہے۔ کمرے کی شمال سیدھ میں گرنتھ پڑھنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ اس کے اوپر ایشیائی مہنگا فانوس دکھائی دیتا ہے۔ کمرے کے عین وسط میں خاص رنجیت سنگھ کی سمادھ ہے جس کے چاروں جانب ایشیائی نفیس سنگ مر مر کے چوکھٹے ہیں۔ سقت کے نیچے چاروں جانب ایشیائی خوبصورت غلام گردش ہیں۔ فرش پر قالین بچھائے گئے ہیں، خاص سمادھ کی دیواروں کے ساتھ ساتھ رنجیت سنگھ کے سب سے بڑے فرزند دلیپ سنگھ کی تصاویر شیشے کے فریموں میں دکھائی دیتی ہیں۔ غلام گردشوں کے نیچے پالکی طرز تعمیر میں دیواریں ہیں۔گرنتھ کے احترام کے لیے ایشیائی خوبصورت مورچھل بھی رکھے گئے ہیں۔ رنجیت سنگھ کی سمادھ میں اس کے ساتھ ہونے والی ستی رانیاں اور کنیزوں کی سمادھوں کے نشان بھی دکھائی دیتے ہیں۔ دیواروں میں جگہ جگہ کاشی کا پرانا کام بھی نظر آتا ہے۔ عمارت کی حفاظت کے لیے بہت اعلیٰ انتظامات کیے گئے ہیں۔ رسول نگر میں ہندؤں کے متعدد مندر بھی ہیں جو ھندو مت کے بجاۓ جین مت کے پیروکاروں کے ھیں اس لئے انکو جین مندر کہتے ہیں
اکثر لوگ جین مت اور ہندو مت کو ایک ہی سمجھتے ہیں مگر یہ دونوں مذہب الگ الگ ہیں۔قدیم بھارت کی دھرتی نے تین مذاہب کو جنم دیا۔جو دنیا کے قدیم مذاہب مانے جاتے ہیں جن میں سب سے پرانا ہندو مت ہے جس کی بنیاد رکھنے والے بھگوان وشنو پاکستان کے علاقے کٹاس میں پیدا ہوئے۔دوسرا مذہب جین مت ہے جو 600 سے 500 سال قبلِ مسیح وجود میں آیا اور تیسرا بد مت ہے جس کی بنیاد مہاتما بدھ نے رکھی۔جین لفظ’ جن‘ سے لیا گیا ہے جس کا مطلب ہے جیتنا یعنی جنہوں نے اپنے من کو جیت لیا ہو وہ جین کہلاتے ہیں اس مذہب میں بھگوانوں کو تیر دھنکر کہا جاتا ہے ۔اس مذہب کے کل 24 تیر دھنکر ہیں جس طرح سیکھوں میں 11 گورو ہیں اور ہندومت میں بھگوان وشنو کے24اوتار ہیں سب سے پہلے تیر دھنکر جنہوں نے اس مذہب کی بنیاد رکھی ان کو’ ریسب دیو‘ یا آدی دیو یعنی سب سے پورانے دیو کہتے ہیں۔دوسرے دتیر دھنکر اجیت نات تھے اور تیسرے سمبھو تھے۔ہر تیر دھنکر نے اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچا نے کے لیے کوئی جانور یہ کسی چیز کو اپنایا ہوا تھا جن کو وہ چن کہتے تھے ریسب دیو کا چن بیل تھا اجیت نات کا ہاتھی اور سمبھو کا چن گھوڑا تھا۔ایک کے بعد ایک تیر دھنکر آتا گیا اور اپنے طریقے اور علم کی بنیاد پر اس مذہب کی بنیادیں رکھتا گیا ہندوکتابوں کے مطابق جو جین مذہب کے 21 ویں تیر دھنکر تھے وہ بھگوان کرشن کے چچلے بھائی اور ان کے 8 ویں اوتار بھی تھے اسی وجہ سے کچھ لوگ دونوں مذاہب کو ایک مانتے ہیں۔مگر یہ دونوں مختلف مذہب ہیں!
ان کے 23 تیر دھنکر کا نام پارسونات ہے اور یہ ان کے مذہب میں بہت اہمیت کے حامل ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے جین مذہب کے ماننے والوں کے لیے 4 اصول دیے جن میں 1 ھینسا ہے یعنی لڑائی جھگڑا نہ کرنا کسی کو کوئی نقصان نہ پہنچانا یہ مذہب کے ماننے والے اس بات کا اس قدر خیال رکھتے ہیں کہ یہ منہ پر ایک کپڑا لگا کر رکھتے ہیں کہ کوئی مچھر وغیرہ بھی منہ میں نہ چلا جائے دوسرا سچ بولنا تیسرا چوری نہ کرنا اور 4 تھا یہ ہے کہ جتنا میسر ہے صرف اُسی پر گزر کیا جائے کوئی بھی اضافی چیز کی چاہ دل میں نہ رکھی جائے۔جین مت کے آخری تیر دھنکر کا نام مہاویر سوامی ہے اور ان ہی کی بدولت یہ مذہب اتنا پھیلا جو ان سے پہلے نہ پھیل سکا انہوں نے 4 اصولوں میں ایک اور کا اضافہ کیا جس کے مطابق عورت ذات سے مکمل طور پر اجتناب کیا جائے۔جس کو عام الفاظ میں بھرم چاری کہا جاتا ہے۔یہ اصول اس لیے بنایا گیا کہ آدمی عورت کی چاہ میں اپنے اصل مقصد سے ہٹ جاتا ہے۔سوامی مہاویرا کا چن شنک تھا جسے ان کی ہر محفل کی ابتدا میں بجایا جاتا ہے۔سوامی مہاویرا کے بعد اس مذہب کے ماننے والوں نے اپنی آسانی کے لیے اس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ایک ابھی بھی ان اصولوں کا مانتے ہیں اور ان میں مزید اضافہ کر لیا ہے اب وہ کپڑے بھی نہیں پہنتے ان کے مطابق یہ دنیاوی چیز ہے اور انسان کو اس کے مقصد سے بھٹکا دیتی ہے اور دوسرے مانتے ہیں ان اصولوں کو مگر اتنی شدت سے نہیں وہ شادی بھی کرتے ہیں اور کپڑے بھی پہنتے ہیں۔مندر کے اوپر کانسی ما ایک گنبد لگا ہوا تھا جو سونے کا محسوس ہوتا تھا مندر کی ذیادہ حالت اس وقت خراب کی گئی جب انڈیا میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا۔اس وقت لوگوں نے مشتعل ہو کر اس مندر کا حلیہ ہی بدل دیا اور کانسی کے گنبد کو اتار کراسکے ٹکرے کر دیے گئے۔۔وزیرآباد سے رسولنگر جاتے ہووے تیس کیلومیٹر کا فاصلہ کئی گھنٹوں میں طے ھوتا کیونکہ قریب رسول نگر ،علی پور چٹھہ اور دیگر مضافاتی علاقوں میں کسان کاشتکاری چھوڑ کر فش فارمنگ کر نے لگے ہیں۔کسانوں نے ہزاروں ایکڑ اراضی پر فش فارمنگ شروع کر دی ہے۔جس سے سڑک بننے کے چند روز بعد ہی کھنڈر میں تبدیل ھوجاتی ھے وزیرآباد تا رسولنگر روڈ سے ملحقہ علاقوں سےروزانہ 25 سے 30 ٹن مچھلی کئی شہروں میں سپلائی کی جاتی ہے جس سے آمدورفت کے لیے بھاری گاڑیوں سے سڑک بننے کے بعد بھی پتھر کے زمانے کے روڈ میں تبدیل ھوجاتی ھے.رسول نگرمیں مہا راجہ رنجیت سنگھ کی عالیشان بارہ دری جس طرح عدم توجہ کا شکار ھےوزیرآباد تا رسولنگر روڈ اسکا منہ بولتا ثبوت ھے کہ کس ھمارے سیا ستدانوں سڑک پر سیاست کر کے ووٹ حاصل کیےاور آج وزیرآباد تا رسولنگر روڈ صدیوں پہلے سے بھی زیادہ پسماندگی کا شکار ھے اس حوالے سے گوجرانوالہ ڈویژ ن این اے 101وزیر آباد رسولنگر سے تین بار قومی اسمبلی کا الیکشن جیت کر ہیٹرک کرنے والے ممبر قومی اسمبلی جسٹس ریٹائرڈ افتخار چیمہ نے راقم الحروف سے پارلیمنٹ ھاؤس اسلام آباد میں خصوصی گفتگو میں بتایا کہنے کہاکہ شہباز شریف تعمیر و ترقی کا نام ھے دوسرے صوبے بھی انکی تقلید کریں حلقہ گوجرانوالہ این اے 101و زیر آباد سے رسول نگر تک روڈ مکمل کی جا رہی ھے حلقہ انتخاب میں تین سے چار ارب کے ترقیاتی کام، کئے جا رھے ھیں جس میں و زیر آباد سے رسول نگر تک پختہ روڈ،وومن ڈگری کالج کا قیام ،سکولوں کی اپ گریڈشن ،ریسکیو ١١٢٢ کا قیام جیسے منصوبے شامل ھیں ریٹائرڈ جسٹس افتخار چیمہ اس حلقہ کے جیتنے کی ہیٹرک مکمل کرچکے ھیں ۔ جسٹس افتخاراحمد چیمہ نے 2008کے الیکشن میں حامد ناصر چٹھہ کو 2013کے الیکشن اور گزشتہ روز ہونے والے ضمنی الیکشن میں محمد احمد چٹھہ کو شکست دی تھی اور یوں اس حلقہ سے اپنی جیت کی ہیٹرک مکمل کی واضح رھے کہ ۔ این اے 101کی سیٹ سپریم سے کی طرف سے ن لیگ کے جسٹس رافتخار احمد چیمہ کے خلاف اثاثے چھانے کے عدالتی فیصلہ کے باعث خالی ہوئی تھی ۔ لیکن ن لیگ نےریٹائرڈ جسٹس افتخار چیمہ کو اپنا دوربارہ امید وار نامزدکیا ۔گوجرانوالہ این اے 101وزیر آباد رسولنگر سے تین بار قومی اسمبلی کا الیکشن جیت کر ہیٹرک کرنے والے ممبر قومی اسمبلی جسٹس ریٹائرڈ افتخار چیمہ نے کہا نواز شریف عوامی لیڈر ھیں جن کی محبت کوئی عوام کے دلوں سے نہیں نکال سکتا وفاقی حکومت نے تاریخی کام کیے نوں لیگی قیادت میں اربوں ڈالروں کا سی پیک منصوبہ شروع ھوا ،لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ھوا ، امن کی بحا لی ممکن ھوئی ،دھشت گردی کا خاتمہ ممکن ھوا ،بلوچستان میں بغاوت کو کچلا گیا ،ممبر قومی اسمبلی جسٹس ریٹائرڈ افتخار چیمہ پی ٹی آئی نے حامد ناصر چٹھہ کے بیٹے محمد احمد چٹھہ اور پیپلز پارٹی نے اعجاز چیمہ کو میدان میں اُترا تھا ۔ لیکن مقابلہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان دیکھنے میں آیا ۔ حلقہ این اے 101کے ضمنی انتخابات میں پولنگ جاری،3لاکھ 86ہزار ووٹراپنا حق رائے دہی استعمال کیا ۔ حلقہ میں مرد ووٹرزکی تعداد 2لاکھ 18ہزارجبکہ خواتین ووٹرز کی تعدادایک لاکھ68ہزارہے حلقہ میں 262 پولنگ اسٹیشن تشکیل دیے گئے تھے جن میں 43مردانہ، 43زنانہ اور 176مشترکہ تھے۔ جبکہ782 پولنگ بوتھ بنائے گئے جن میں 430مردانہ، 352زنانہ پولنگ بوتھ تھے سیکیورٹی کے حوالے سے تمام پولنگ اسٹیشن پر پولیس اور الیٹ فورس پاک فوج کے نگرانی انتخاب ھوا تھا ں این اے 101 کے ضمنی الیکشن نتائج کے مطابق مسلم لیگ ن کے جسٹس افتخار چیمہ 82,420ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے جبکہ ان کے مد مقابل پی ٹی آئی کے محمد احمد چٹھہ 80,123ووٹ حاصل کر سکے تھے ۔ ..