counter easy hit

امریکی سامراج کے ہم نوا لہ اور ہم پیالہ حکمران!

Nouman Qadir

Nouman Qadir

تحریر: نعمان قادر مصطفائی

وطن عزیز کی روز بروز بگڑتی حالت زار پر رونا آرہا ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ہمارے ”کرم فرما ” سیاستدانوں نے اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ باوجود قدرتی وسائل کے ہم من حیث القوم بھکاری ہو گئے ہیں حکمرانوں نے ہمیں در در کا منگتا بنا دیا ہے خادم اعلیٰ پنجاب جنابِ میاں شہباز شریف نے پانچ سال پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ ”کشکول توڑ دیا جائے گااور بیرونی امداد کو پائوں کی ٹھوکر سے اُڑا کے رکھ دیا جائیگا ” مگر بد قسمتی یہ ہے کہ آج تک جتنے بھی اعلانات کیے گئے اور منصوبے بنائے گئے اُن پر آج تک عملدر آمد نہیں ہوا بڑے بڑے عوامی اجتماع دیکھ کر ویسے بھی انسان کا دل آسمان سے تارے توڑنے کو کرتا ہے اس وقت ملکی سلامتی دائو پر لگی ہوئی ہے اور امریکہ مسلمان ملکوں خاص کر پاکستان پر چڑھ دوڑنے کے لیے بے تاب ہے کا ش ہمارے ”غیور ” حکمرانوں کے کانوں پر جوں رینگے اور وہ بھی احساس کر لیں کہ اپنی غیرت و حمیت کو کبھی گروی نہیں رکھیں گے کیونکہ ہمارے حکمرانوں نے تو ملی غیرت و حمیت کا جنازہ نکال کے رکھ دیا ہے

صلیبی سامراج کے ہم نوا حکمرانوں اور ہم خیال دانشوروں نے سفلی اور وقتی بلکہ جزوقتی مفادات کے حصول کی آس میں عالم اسلام کے سادہ لوح مسلمانوں کے مستقبل کو دائو پر لگا دیا ہے ،ان مفادات کی حیثیت دھوپ کے چوراہے میں بالائے بام رکھی برف کی اس سل سے زیادہ نہیں جو لمحہ لمحہ اور قطرہ قطرہ پگھل کر بھاپ بن جاتی ہے ان دنیا دار دانشوروں اور ”درباری علاموں ” کی تمام تر مادی ثروتیں ارباب ِ حق کی نگاہ میں کیا حیثیت رکھتی ہیں ؟آئیے ! یہ جاننے کے لیے باب العلم ، صاحب نہج البلاغہ ، فاتح خیبر اور حامل ذوالفقار حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بارگاہ امامت میں حاضر ہوں ، فر ماتے ہیں ”تمہاری یہ دنیا اور اس کا جلال و جمال میرے نزدیک کوڑھ زدہ شخص کے ہاتھ میں پکڑی سور کی انتڑیوں سے بھی حقیر ہے ”ہذیان گو شرابی دانشور یا غامدی ایسے خانہ ساز عبقری کی رائے پرِ کاہ سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی ، ارشاد ربانی ہے ”اے ایمان والو !یہود و نصاریٰ کو دوست مت بنائو ، یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو کوئی ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہی میں سے ہو گا ، بے شک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ، پھر جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہے تو ان کو دیکھتا ہے کہ وہ دوڑ دوڑ کر ان سے ملے جاتے ہیں

کہتے ہیں کہ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ہم پرزمانے کی گردش نہ آجائے ۔سو، قریب ہے کہ اللہ فتح دے یا اپنے ہاں سے کوئی حکم بھیجے پھر وہ ان پر نادم ہو جائیں گے ، جسے اپنے دل میں چھپاتے تھے ” (المائدہ 50/51) حُب جاہ اور حُب مال بعض اوقات انسان کو عبرتناک انجام سے دو چار کر دیتا ہے اور اس حقیقت کو قرآن میں بھی یوں بیان کیا گیا ہے کہ انسان دوسروں کے انجام کو دیکھ کر بھی عبرت نہیں پکڑتا ،ابھی چند عشرے پہلے کرنل قذافی کا لیبیا میں ایک ہیرو کے طور پر ظہور ہوا تھا ایک انقلابی کے طور پر انہیں بڑی قدرو منزلت ملی لیکن اقتدار سے یوں چمٹے کہ پھر واپسی کا راستہ ہی بھول گئے اور شاید خواہش یہ تھی کہ آخری سانس تک اقتدار اپنے پاس رکھا جائے لیکن وہ بھول گئے تھے کہ قدرت کے قوانین اٹل ہوتے ہیں ان میں ہمارے آئین کی طرح ترامیم نہیں ہوا کرتیں اور قدرت کے ان قوانین میں سے ایک قانون یہ بھی ہے کہ بڑے سے بڑا با جبروت حکمران بھی جب عوام کی گردنوں پر پیر تسمہ پا کی طرح سوار ہو جائے گا تو بالآخر زوال کو اس کا مقدر بنا دیا جائے گا

ایک زمانے میں فاطمیوں ، امویوں اور عباسیوں کا طوطی بولتا تھا تینوں خاندانوں نے لمبے عرصے تک اقتدار کے مزے لوٹے ، لیکن آج ان کا اقتدار کہاں ہے ؟ برِ صغیر میں مغل آئے تو تھوڑے ہی عرصے میں انہوں نے یہاں کا اقتدار حاصل کر لیا ، سات سو سال تک باپ کے بعد بیٹا ، بیٹے کے بعد پوتا اور پوتے کے بعد اس کا بیٹا حکومت کرتے رہے لیکن جب زوال شروع ہوا تو آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی حکمرانی سمٹ کر صرف دلی تک رہ گئی دلی سے سمٹی تو وہ لال قلعے تک محدود ہو کر رہ گئے اور لال قلعے سے نکالے گئے تو اس عالم میں کہ وہ انگریزوں کے سامنے کسی مجرم کی طرح سر جھکائے کھڑے تھے اور ان کے سامنے ان کے جوان بیٹوںکے سر سونے کی بڑی بڑی تھالیوں میں رکھ کر پیش کیے جا رہے تھے ، بد نصیبی نے پھر بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑا اور وہ رنگون( کالا پانی ) میں عمر قید کاٹنے کے لیے بھیج دیئے گئے ظفر شاعر تھے اور اپنی بد نصیبی پر اشعارلکھناچاہتے تھے لیکن قید کرنے والوں نے قلم اور دوات کی سہولت بھی نہ دی کوئی انہیں جلے ہوئے کوئلے دے جا یا کرتا تھا انہیں سے قید خانے کی دیواروںپر اپنے حسبِ حال شعر لکھا کرتے تھے جن میں ایک یہ بھی ہے
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

چشم فلک نے ایک زمانے میں تا تا ریوں کا طوطی بولتادیکھا ان کا نام سُن کر بڑے بڑے حکمرانوں کے پتے پانی ہو جایا کرتے تھے لیکن آج تاتاری اور ان کا اقتدار کدھر ہے ؟ درحقیقت انسان کو دوام ہے نہ اقتدار کو اور انسان ان دونوں حقیقتوں کو خوب جانتا اور مانتا ہے لیکن حریص اتنا ہے کہ جیتے جی اقتدار چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا حسنی مبارک ہوں یا کرنل قذافی اگر اپنے عروج کے زمانے میں ہی اقتدار کسی دوسرے اہل آدمی کو سونپ دیتے تو ان حالات سے قطعی دو چار نہ ہوتے ،اگردیکھتی آنکھوں اور سُنتے کانوں سے بین الاقوامی حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت دنیا میں 36امیر ترین وہ لوگ ہیں جو دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں ان عیاش ترین اور اوباش حکمرا نوں کی دولت ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اثاثوں سے بھی زیادہ ہے اور حسنی مبارک اس شاہانہ فہرست میں پہلے نمبر پرآنے کا اعزاز حاصل کر چکے تھے

ان کے اثا ثوں کی مالیت 70بلین ڈالر تھی اور یہ تمام رقم حسنی مبارک نے مصر کے عوام کی رگوں اور اپنے پالے گئے ٹھگوں سے کمائی تھی مگر آج دنیا کے 36امیر ترین حکمرانوں میں سے پہلے نمبر پر آنے والے حسنی مبارک کا انجام دیکھ لیں کہ انہوں نے اور ان کی اہلیہ نے شرم الشیخ کے ہسپتال میں سسک سسک کر زندگی گزار ی ہے اور اپنی آنکھوں سے اپنی حسرتوں ، خواہشوں ، کامیابیوں کو ذبح ہوتے دیکھا ہے عبرت ہے ہمارے ان حکمرا نوں کے لیے جو سرکاری پٹرول پمپس تک ہڑپ کر گئے، این آئی سی کو نہیں چھوڑا اور تو اور حاجیوں کو بھی نہیں بخشا گیا اس سے زیادہ بے حسی اور ہوس زر کیا ہوگی ؟موجودہ حکومت کو دیکھ لیں دوسالوں میں عوام کو کچھ بھی ڈلیور نہیں کر پائی ، پانچ سال پورے کریں گے ، ہر حال میں پورے کریں گے کی رِٹ نے غریب عوام کا جینا دو بھر کر دیا ہے بلکہ اب تو غریب کے لیے سانس لینا بھی مشکل ہو گیا ہے۔

حکمران سمجھتے ہیں گو یا عوام کوکچھ ڈلیور کرنا ضروری نہیں پانچ سال پورے کرنا ضروری ہیں مہنگائی کی شرح میں حیران کُن حد تک اضافہ اور دیگر مسائل کے باعث پاکستان میں حالیہ چند برسوں کے دوران خود کشی کا رحجان خطر ناک حد تک بڑھ گیا ہے اور موجودہ حکومت کے پہلے سال میں تقریباََ سات ہزار افراد نے اپنی زندگی پر موت کو ترجیح دی ورلڈ بینک کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پا کستان میں غربت اور مختلف پر اسرار بیماریوں سے تنگ افراد میں خود کشی کا رحجان بڑھ رہا ہے اور صرف 2013ء میں سات ہزار افراد نے ان حالات سے تنگ آکر خود کشی کر لی تھی ، لوگوں کو بیماریوں کے علاج کے لیے اپنی کمائی اور بچت کا زیادہ تر حصہ خرچ کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے با وجود بیما ریوں کے شکنجے سے نہیں نکلتے ، پاکستان میں 34فیصد اموات دل کی بیما ریوں سے ہوتی ہیں جبکہ ذیابیطس کے حوالے سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا بلک ہے اور ملک میں شہری علاقوں کی 16.5فیصد اور دیہی علاقوں کی 13.9فیصد آبادی اس مرض میں مبتلا ہے
مرکز یقین ، کشور حسین ، پاک سر زمین پاکستان میں ٹیکس ادائیگی کا یہ حال ہے کہ بمشکل ایک فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں

بد عنوان اشرافیہ مفادات کا تحفظ اور نجی دولت کی نگرانی کرتی ہے ضروری فنڈز کا گلا گھونٹا جاتا ہے ، پاکستان میں ٹیکس دینا ایک نا پسندیدہ عمل گردانا جاتا ہے مجموعی قومی پیداوار کا 10فیصد سے کم حصہ ٹیکس ریونیو سے حاصل ہو تا ہے جو دنیا میں انتہائی کم ترین شرح میں سے ایک ہے ، ،ہم آج تک ڈرون حملوں کو نہیں روک سکے اور نہ پارلیمنٹ کی قرا رداد پر عمل کر سکے ہیں حکمران کہتے ہیں کہ ہم ڈرون حملے نہیں روک سکتے ہمارے پاس صلاحیت نہیں ہے جبکہ فوج کے اعلیٰ افسران کہتے ہیں کہ حکومت اجازت دے تو ایک منٹ سے پہلے ڈرون گرائے جا سکتے ہیں ، آخر یہ کھلا تضاد نہیں ہے ؟کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں گزشتہ چھ مہینوں میں 237سیاسی کارکن مارے گئے اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے مگر ذمہ داران کا تعین نہیں ہو سکا ، حکمرا نوں نے کبوتر کی طرح اپنی آنکھوں کو بند کر رکھا ہے اور امریکہ ،اسرائیل اور بھارت کے دہشت گرد آتے ہیں اور رات کی تنہائیوں میں اہم ترین جگہوں پر حملہ کر کے سب کچھ تہس نہس کر کے چلے جاتے ہیں اور ہمارے حکمران دیکھتے رہ جاتے ہیں اگلے روز وزارت خارجہ کی طرف سے بیان جاری ہو جاتا ہے کہ بہت جلد اصل مجر موں کو پکڑ لیا جائے گا مگر پھر وہی ”ڈھاک کے تین پات ” والی بات ہو کر رہ جاتی ہے

پاکستان کی جیلوں میں پھانسی کا انتظار کرنے والوں کی تعداد 8000 تک پہنچ گئی ہے جن میں سے آدھے پنجاب کی جیلوں میں گل سڑ رہے ہیں پاکستان کی 91 جیلوں میں قیدیوں کی گنجائش ساڑھے 42 ہزار سے زیادہ نہیں مگر ان میں ساڑھے 75 ہزار قیدی ٹھونسے گئے ہیں 67 خود کش حملوں میں 1159 لوگ مارے گئے اور 5000 شدید زخمی ہوئے ، مزے کی بات تو یہ ہے کہ گزشتہ دوسالوں میں قومی اسمبلی کے 200 ارکان نے مسلسل اور متوتر خاموشی اختیار کئے رکھنے کا ریکارڈ قائم کیا ،اِن 200 حلقوں کا کیا حال ہو گا جہاں کے ”غریب پرور ” نمائندگان نے اپنی عوام کی سہولت کے لیے زبان تک نہیں کھولی اور معصوم صورت بنائے پارلیمنٹ میں بنے نقش و نگار کا بغور معائنہ کرتے رہتے ہیں اور سردیوں میں گرم ترین اور گرمیوں میں سرد ترین ماحول اور ٹی اے ڈی اے کا لطف لیتے رہتے ہیں نہ جانے اِن نمائندگان نے اپنے حلقے کی عوام سے کیا کیا وعدے کیے ہوں گے اور حلقے کی ابتر صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کیا کیا منصوبے اپنے کُند ذہنوں میں گھڑے ہوں گے ؟اب مزے کی بات یہ ہونی چاہیے کہ جب یہ نمائندگان اپنے اپنے حلقوں میں جائیں تو عوام ان کا سواگت ”اچھے ” انداز سے کرے تاکہ ایسے ”غریب پرور ” نمائندگان کی طبیعت ٹھکانے لگے !

تحریر: نعمان قادر مصطفائی