counter easy hit

اشارے، ادارے اور ارادے

کچھ لوگ اپنی نکیل خواہشات کے ہاتھ میں دے کر مست اونٹ کی طرح اندھا دھند اس کے پیچھے بھاگتے چلے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ ایک چوکس رہنما کی طرح حالات کا صحیح تجزیہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں یا وہ خود ہی قوم کو بے خبر رکھنا چاہتے ہیں کہ اسی میں ان کا مقصد پورا ہوتا ہے۔

انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ہمارا ازلی دشمن بھارت ہمارے دریائوں کا پانی روک کرہماری سونا اگلتی زمینوں کو صحرا بنادینا چاہتا ہے۔ اسے ایسی مذمو م حرکات سے کیسے روکا جائے۔ ہماری سرحدوں پر مسلسل گولہ باری کے پیچھے دشمن کی کیا نفسیات کام کر رہی ہے؟روہنگیا،کشمیر،فلسطین اوردنیا کے کئی دوسرے خطوں میں مسلمانوں پرکیا قیامت ٹوٹ رہی ہے۔ ان کی مدد کیسے کی جائے ۔

باہر کی دنیا سے بے خبر لاروے کی طرح وہ خواہشوں کی گود میں اونگھ رہے ہیں۔ انہیں یہ سوچنے کی فرصت ہی نہیں کہ امریکہ افغانستان میں بھارت کا کردار کیوں بڑھا رہا ہے اور بار بار حملہ کرنے کی دھمکی کیوں دے رہا ہے۔ یہ دھمکی سے کام نکالنے کی ترکیب ہے یا اس سے آگے بھی اس کے کچھ ارادے ہیں۔ ارادے ہیں تو کیا ہیں اور ہمیں اس کے لئے کیا کرنا چاہیئے۔عالمی سطح پر سیاسی صورت حال کیارخ اختیار کر رہی ہے اور ہم پر اس کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ہمارا دشمن ہمارے خلاف کیا جوڑ توڑ کر رہا ہے۔ حالات کی بے یقینی اور اتار چڑھائو سے سٹاک مارکیٹ بار بار کریش ہو رہی ہے، مہنگائی کی نگاہیں آسمان کی بلندیوں پرہیں،وہ پرواز کے لئے پر پانکھ نکال رہی ہے۔ ان مسائل کا حل تلاش کرنے کی بجائے کچھ لوگوں پر حکومت کو چلتا کرنے کی دھن سوار ہے تاکہ ان کی باری آسکے۔اس کے لئے ملک وقوم کو چا ہے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔

حکومت کے کرتا دھرتا اپنے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ انہیں جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ کاروباری لوگ تذبذب کاشکار ہیں کہ یہیں بیٹھ کر حالات کا رخ دیکھیں یا باہر کی راہ لیں۔ پریشان عوام ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں کہ کیا ہونے والاہے۔ ما حول میں ایک ہیجانی کیفیت ہے اور ہمارے ذمہ داربیان بازی کے مزے لے رہے ہیں۔  اپوزیشن رہنمائوں نے جیسے قسم کھا کر خبروں میں رہنا اپنے اوپر لازم کر لیا ہے اور اس کے لئے حکومت کو بات بے بات نشانہ بنائے رکھنا ضروری ہے۔ کچھ لوگوں کا بیان کچھ ایسا ہوتا ہے جیسے فوج ان کی پشت پر ہے اور عدلیہ ان کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑی ہے۔اتفاق سے فیصلہ بھی وہی ہوجاتا ہے جس کی خبرپہلے سے دی گئی ہوتی ہے۔

شریف خاندان کے ساتھ اب دوسرے لوگ بھی یہ کہنے لگے ہیں کہ احتساب کا ڈھونگ صرف شریف خاندان کو سیاست سے آئوٹ کرنے کے لئے ہے۔ ووٹ کے ذریعے تو ان کو شکست دینا ممکن نہیں۔ نواز شریف تو دشمن حلقوں کے دل میں بہت کھٹکتا ہے۔  یہ شخص پاکستان کی خوشحالی اور استحکام کے نئے نئے منصوبے بناتا رہتا ہے، موٹر وے بناتا ہے، ایٹمی دھماکا کرتا ہے،گوادر بندر کو وسعت دینے کے لئے، سی پیک، ون بیلٹ ون روڈ جیسے منصوبے بناتا رہتا ہے۔ دشمن پاکستان میں ایسا ہی انتشار چاہتے  تھے۔ ہمارا دوست چین پاکستان کی اس صورت حال پر الگ پریشان ہے۔  چھ مہینے دھرنوں کا ڈراما رہا،وہ ناکام ہوا تو پانامہ آگیا،اس سے بات نہ بنی تواقامہ نکال لیا۔ نوازشریف کے ساتھ ساتھ اس کا ساراخاندان اقامے کی اس لپیٹ میں آ گیا۔ نوازشریف گیا تو شہباز شریف اور اس کے خاندان کو نشانے پر رکھ لیا۔ لوگ پوچھتے ہیں کیا بائیس کروڑ میں یہی ایک خاندان کرپٹ ہے باقی سب دودھ میں دھلے ہوئے ہیں؟

اس حقیقت سے کسی جج کسی منصف کو کوئی غرض نہیں کہ ایک خالص کاروباری غیر سیاسی خاندان کو ایک حاکم وقت نے بے وجہ لوٹا اور اسے آسمان عروج سے زوال کی پستیوں میں پھینک دیا۔ یہ بھٹو کا دور تھا۔ جب بھٹو نے “سوشلزم، ہماری معیشت” کا نعرہ لگا کرلوگوں کے محنت سے بنائے کارخانے اور کاروبارقومیائے تو شریف فیملی کی طرح کتنے ہی لوگوں نے دوبارہ لٹنے سے بچنے کے لئے باہر کا رخ کیا۔ بھٹو نے قوم کو نیا پاکستان دینے کا وعدہ کیا جس میں ہر کرایہ داراس مکان کا مالک بن جائے گا جس میں وہ کرایے پر رہ رہا ہے ،ہر مزارع اس زمین کا مالک بن جائے گا جسے وہ جوت رہا ہے۔ بھٹّو نے دبی ہوئی مخلوق کے لہو میں آتشِ انقلاب کی ایسی چنگاریاں بھریں کہ چڑیا چیل سے چونچ لڑانے لگی۔

ہم بھی نئے موسموں کے داعی اس قافلے میں منزل تک گرد وغبار پھانکنے کے لئے ساتھ رہے۔ جی منّے جی داری سے اور اجل کے دوش پہ چڑھ جائو زندگی کے لئے،جیسی باغیانہ نظمیں لکھیں مگر جب بھٹو صاحب نے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی اور ڈاکٹر مبشر جیسے سوشلزم کے سچے حامیوں کو ایک ایک کرکے پارٹی سے نکال باہر کیا تو بھید کھلا کہ انقلاب کے نام پر یہ میلہ کرسی کے لئے تھا۔ عوام کو جو خوبصورت خواب دکھائے گئے تھے ان کوتو تعبیرنہ مل سکی البتہ پاکستان کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ عوام کااعتماد بری طرح مجروح ہوا جس کا رد عمل 88ء کے الیکشن میں سامنے آیا۔ بھٹو کا نیا پاکستان پرانے سے بھی زیادہ خراب حال نکلا۔ اب عمران نیا پاکستان بنانے کا دعویٰ کر رہا ہے تو دل سن کر ڈوبنے لگتا ہے۔ پہلے والوں نے نیا پاکستان بنایا تو پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیے، اب کے خدا خیر کرے کہ نیا پاکستان کس قیمت پر بنے گا۔ مجھے اپنا وہ شعر یاد آ رہا ہے جو میں نے بھٹو دورحکومت میں کہا تھا۔

حیرت زدہ ہے جذبہ تائید انقلاب

عنوان روشنی ہے اندھیرے خطیب ہیں

بھٹو کے ناکام دعووں سے عوام کے با شعور طبقے نے یہ سبق سیکھا کہ لیڈر حضرات کے تمام خوش کن نعرے نبھانے کے لئے نہیں ہوتے ،بلکہ ان میں زیادہ دعوے صرف لبھانے کے لئے ہوتے ہیں۔ لوگوں کے کندھوں پر سوار ہو کر ان کا مقصد اقتدارکی کرسی تک پہنچنا ہوتا ہے۔ ستّر سال دھوکے کھانے کے بعد لوگ نعروں کے پیچھے چھپی اقتدار کی خواہش کی بوسونگھنے لگے ہیں۔ عمران کے بارے میں اب غیرجانبدارلوگ کھل کر کہنے لگے ہیں کہ عمران کامسئلہ کرپشن نہیں کرسی ہے۔ بھٹو کے بعد عوام کی یہ تجزیہ کرنے کی عادت عمران کی بدقسمتی بن گئی۔ یہی وجہ ہے عوام آنکھیں بند کر کے اس کے پیچھے ایسے نہیں لگے جیسے بھٹو کے دیوانے ہوئے تھے۔عمران بھی اس بات کو سمجھتا ہے۔ شاید اسی لئے وہ جھنجلاہٹ میں پورے نظام کو اتھل پتھل کر کے قوم اور ملک کو کوئی بڑی سزا دینا چاہتاہے۔

عمران اس حقیقت کو خوب سمجھتاہے کہ لوگ اس کے نعروں کے نہیں بلکہ نواز شریف کی عملیت کے ساتھ ہیں۔ عام آدمی الیکش سے اس کے فرار کی یہی وجہ سمجھتا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ فوج اور عدلیہ ن لیگ کو میدان سیاست سے باہر کردے ، تاکہــ گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے۔ خیر سے پیپلز پارٹی نے تو خود ہی سیاست سے دیس نکالا لے لیا ہے۔ عمران کی سر توڑ کوشش ہے کہ الیکشن کی نوبت نہ آئے ۔ اس کے لئے چاہے ملک میں ہنگامے ہوں،خانہ جنگی ہو،ادارے ٹکرائیں، مارشل لا لگے یا امریکہ جیسا ازلی دشمن اس ہنگامہ خیزی سے فائدہ اٹھا کرایٹمی ہتھیاروں کا دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا واویلا کر کے پاکستان پراپنے نیٹو کے اتحادیوں کے ساتھ چڑھ دوڑے ،جس کی وہ بار بار دھمکی دے بھی چکا ہے ۔

عوام کو پورا یقین ہو گیا ہے کہ عمران کی عدلیہ اورآرمی سے ہر سانس محبت کے اظہار کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ حکومت کو فارغ کریں اور وزارت عظمٰی کا تاج اس کے سر پرسجا دیں۔اب تک عدلیہ اور آرمی سیاست میں مداخلت کے اس الزام سے انکار کر رہی ہے۔ مگر عمران کے اشاراتی طرز تخاطب نے کیا  عوام کیا خواص،کیا سیاست دان کیا غیر سیاسی لوگ،کیا اپوزیشن ،کیا اہل حکومت سب کے دل میں شک کی ایسی جڑ پکڑی ہے کہ انکارکے باوجود پھیلتی ہی جا رہی ہے۔

مصطفیٰ کمال کے اس انکشاف نے کہ فاروق ستار کی خواہش پر اسٹیبلشمنٹ نے اس سے ملاقات کرائی، قومی سیاست میں ہلچل مچ گئی ہے۔ یہ تو شک کی بیل کو یقین کی کھاد دینے کی طرح ہے۔ پیپلز پارٹی نے تو مصطفٰی کمال کے الزامات پر جوڈیشنل کمیشن بنا نے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔مسلم لیگ نے ردعمل میں کہا ہے کہ سیاسی جماعتیں بنانے اور توڑنے کا مشغلہ ترک کرنا ہو گا۔ دیگر متعدد سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت بند ہونی چاہیئے۔ ایسے بیانات سے اخبار بھرے پڑے ہیں۔ کچھ نے تو ایک قدم آگے بڑھا کر اس بات کا اظہار بھی کیا ہے کہ ان الزامات سے ان شکوک کو بھی تقویت ملتی ہے کہ ان دنوں ملک میں جو ہو رہا ہے،وہ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے ہو رہا ہے۔ ایسی باتوں سے نہ صرف عدلیہ اور فوج کی جمہوریت پسندی اورانصاف کے دعوئوں کی نفی ہوئی بلکہ اندراور باہر کے دشمنوں کوان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں مدد ملے گی۔ سیاسی رہنمائو ں کے ایسے بیانات سے عمران کو اپنی منزل دور ہوتی نظر آئے گی اور وہ فطری طور پر جھنجھلاہٹ کاشکار ہوں گے مگر اسے تبدیل ہوتے حالات کے پیش نظرملک وقوم کے مفاد اور اظہارمحبت کے کیلئے اپنا رویہ بدلنا چاہیئے۔

اس وقت پوری قوم پریشان ہے۔ چیئر مین سینٹ رضا ربانی جیسی بردبار شخصیت بار باراپنی تشویش کا اظہار کر چکی ہے۔ انہوں نے خبردارکیا ہے کہ وفاق کے گرد گہرے بادل منڈلا رے ہیں ۔دس دن سے پنڈی اسلام آباد مفلوج ہے۔ ملک میں صورت حال تشویشناک ، بلوچستان میں کوئی آواز بلند کرے تو اہل خانہ ڈھونڈتے پھریں گے۔ وہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ اداروں کو اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیئے۔ دوسرے اداروں میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے۔ چئیر مین پی پی بلاول بھٹو زرداری،اپوزیشن لیڈر خورشیدشاہ اوردوسرے رہنمائوں سمیت سب ہی نے غیر آئینی اور غیر جمہوری طریقے سے وجود میں آنے والی کسی قومی یا ٹیکنو کریٹ حکومت کو تسلیم نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ وہ سب اس انہونی کے امکان سے پریشان ہیں جس کا یقین عمران خاں ہر سانس دلانے کی کوشش کر رہا ہے۔

کسی قوم کو بے یقینی کا شکار کرنا،ٹکڑوں میں بانٹ کر آ منے سامنے کھڑاکر دینا دشمن کی پہلی خواہش ہوتی ہے سو یہ کیفیت تو کافی دیر سے ہے بس ٹکرائو اور خانہ جنگی کی کسررہ گئی ہے۔ دوسری خواہش اداروں کو آپس میں ٹکرادینا ،سو اس کے لئے بھی خیر سے کچھ ناسمجھ غرض کے بندے پوری دیانتداری سے کوشش کر رہے ہیں۔ تیسرا یہ کہ ملک میں کوئی ایسی توانا آواز اورقد آور شخصیت نہ چھوڑی جائے جوقوم کا مرکز ہوسکے۔ تو بابائے قوم قائد اعظم کی طرح توانا، قد آوراور مقناطیسی شخصیت تو کوئی دکھائی نہیں پڑتی ۔ایک شخص میں کچھ جان ہے تواس کے کردارکو دن رات مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔یہ رائے ہرصاحب نظر پاکستانی اور بے لاگ تبصرہ کرنے والے غیر پاکستانیو ں کی بھی ہے۔یہ وقت اپنی ذات کی نفی کر کے پاکستان اور پاکستانی قوم کے لئے سوچنے کا ہے۔یہ صورت حال ملک اور قوم کے حق میںخوش کن نہیں۔ایسے حالات پیدا مت ہونے دیجئے ،جن کے دئے زخموں کاازالہ نہ ہوسکے اور قوم پچھلے حساب  چکانے کے موڈ میں آجائے۔