counter easy hit

بھارتی فیصلہ علاقائی امن و سلامتی متاثر کرے گا

میں نے پھل بیچنے والے سے پوچھا،اس انگور کے گچھے کی قیمت کیا ہے ؟پھل والا بولا 120روپے کلو،پاس ہی الگ سے کچھ مختلف ٹوٹے ہوئے انگوروں کے دانے بھی پڑے ہوئے تھے میں نے اُن کا بھاؤ پوچھا تو پھل والے نے جواب دیا 60روپے کلو،میں نے پوچھا ان ٹوٹے ہوئے دانوں کے اتنے کم دام کیوں ؟وہ بولا :ہیں تو یہ بھی بہت عمدہ لیکن یہ گچھے سے ٹوٹ گئے ہیں، اُسی وقت میرے ذہن میں یہ بات گردش کرنے لگی کہ اپنے معاشرے اور بزرگوں سے الگ ہونے پر ہماری قیمت آدھی سے بھی کم رہ جاتی ہے۔ 9نومبر کو ہم نے اپنے ایک بزرگ سے ناتا توڑ لیا اور یہ بالکل نہ سوچا کہ اس عمل سے ہماری قیمت آدھی سے بھی کم رہ جائے گی۔ہمارے وہ بزرگ عاشق رسول ﷺ،بہت بڑے فلاسفر اور شاعر تھے اُن کی شاعری میں جہاں عشق نبی ﷺ نظر آتا ہے وہاں اُس شاعری نے برصغیر پاک و ہند کے فکری اور سیاسی طور پر منتشر مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگانے میں اہم کرداربھی ادا کیاتھا۔ہم اپنے اُس بزرگ کے دُنیا میں آنے کی خوشی منایا کرتے تھے، اُن کے یوم ولادت پر جہاں تقاریب کا اہتمام ہوتا، وہاں اُن خوشیوں میں تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کی شمولیت یقینی بنانے کے لئے عام تعطیل بھی ہوا کرتی تھی۔موجودہ حکومت نے اُس تعطیل کو ختم کردیا،شاید ہماری خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئی،موجودہ حکومت نے کیا سوچ کر یہ تعطیل ختم کی یہ تو حکومتی ’’ تھنک ٹینک‘‘ ہی بتاسکتے ہیں ہم تو صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارے وہ بزرگ اور اُن کی خدمات پاکستان سے زیادہ دوسرے ممالک تسلیم کرتے ہیں، جس کے لئے میں یہ کوشش کروں گا کہ اُن کی خدمات اور دوسرے ممالک میں اُن کے احترام کولکھوں تاکہ سب کی معلومات میں مزید اضافہ ہو۔میں آج اُس بزرگ کہ جن کا نام علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ؒ تھا کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، یہ وہی علامہ اقبالؒ تھے جنہوں نے مسلمانوں کےلئے علیحدہ وطن کا خواب دیکھا اور انڈیا میں مسلم لیگ کے25ویں سالانہ اجلاس الہ آباد میں 29دسمبر 1930 کو اپنی تقریر میں اُس خواب کا اظہار کردیا۔ علیحدہ وطن کی کوششیں تیز ہوئیں اور 1940میں منٹو حسن پارک لاہور میں پیش کی گئی قراداد کو قائد اعظم ؒ کی قیادت میں مسلمانوں نے صرف 7سال بعدہی عملی جامہ پہناتے ہوئے 14اگست 1947 کو پاکستان حاصل کر لیا۔یہ وہی علامہ اقبالؒ تھے جنہوں نے جرمنی میں تعلیم حاصل کرکے جرمن زبان کی غلطیاں دُرست کی تھیں جس کے اعتراف میں جرمن حکومت نے اپنے شہر ’’ ہائڈل برگ ‘‘ میں علامہ اقبال کے نام سے ایک سڑک منسوب کرکے انہیں خراج تحسین پیش کیا جہاں آج بھی اقبالؒ کے نام کی تختی آویزاں ہے۔ اسپین کی تاریخی’’ مسجد قرطبہ‘‘ جسے اب چرچ بنا دیا گیا ہے اُس میں اذان دینا اور نماز پڑھنا قانونی طور پر منع ہے، لیکن حکومت اسپین نے 1931میں علامہ اقبالؒ کو اُن کی شاعری، فلسفے اور تعلیمی خدمات کے اعتراف میں مسجد قرطبہ کے اندر نماز پڑھنے کی اجازت دی،یہ وہی علامہ اقبالؒ تھے جنہوں نے مسجد قرطبہ میں اذان دی اور نفل ادا کئے اُس کے بعد آج تک کسی کو یہ سعادت حاصل نہیں ہوئی۔1932میں علامہ اقبالؒ نے مسجد قرطبہ اور اسپین میں مسلمانوں کے دور حکومت کے عروج و زوال پر نظمیں بھی لکھیں۔ حکومت اسپین نے اپنے شہر قرطبہ میں ایک گلی علامہ اقبالؒ کے نام سے منسوب کردی، ہمارے حکمرانوں اور ’’ تھنک ٹینکس ‘‘ کو یہ بتانے کے لئے کہ دوسرے ممالک میں علامہ اقبالؒ کا کتنااحترام ہے قرطبہ شہر کے وسط میں وہ گلی آج بھی موجود ہے۔یہ وہی علامہ اقبال تھے جن کی جرمنی میں دوران تعلیم محمد اسد سے ملاقات ہوئی،محمد اسد جن کا تعلق آسٹریا سے تھا اور وہ یہودی تھے لیکن اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر مسلمان ہوئے اور اپنا نام محمد اسد رکھا۔بعد میں محمد اسد 1932میں انڈیا آئے اور علامہ اقبالؒ سے ملے جہاں دونوں نے مسلمانوں کےلئے علیحدہ وطن کے حصول کے لئے کام کیا۔ علامہ اقبالؒ نے محمد اسد کو کہہ کر صحیح بخاری کا انگریزی میں ترجمہ کرایا،محمد اسد پہلے غیر ملکی بھی تھے جنہیں پاکستان کی شہریت دی گئی اور اقوام متحدہ میں پہلے پاکستانی مندوب بھی محمد اسد ہی بنے،محمد اسد نے بہت سی اسلامی کتب لکھیں لیکن ان کی کتاب ’’ روڈ ٹو مکہ ‘‘ کو اسلامی دنیا میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔یہ وہی علامہ اقبالؒ تھے جن کے بارے میں رواں صدی کے ولی علامہ شیر محمد صاحب شرقپوریؒ نے اپنے مریدوں سے کہا تھا کہ اقبالؒ کی داڑھی اُس کے اندر ہے جو میں دیکھ سکتا ہوں آپ سب نہیں۔یہ وہی علامہ اقبالؒ ہیں جن کی شاعری، فلسفے اور ادب سے متاثر ہو کر جرمن کی پروفیسر اور محقق خاتون ’’ این میری شمل ‘‘ نے اقبالیات پر باقاعدہ پی ایچ ڈی کیا اور پھر مرتے دم تک علامہ اقبال ؒ کے جائے پیدائش (پاکستان)سے اپنا رشتہ جوڑے رکھا۔ ضیا ء الحق کے دور میں اس خاتون کو نشان پاکستان سے نوازا گیا۔اب آپ خود دیکھیں کہ جس خاتون نے اقبالؒ پر لکھا وہ ’’ نشان پاکستان‘‘ کی حقدار ٹھہری اور جس پر لکھا گیا اُس مفکر پاکستان کے یوم پیدائش کی چھٹی کو ختم کردیا جانانہ جانے کہاں کی حکمت ہے ؟ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کا وجود ہے تو دُنیا بھر میں موجود ہمارے سفارت خانوں اور قونصل خانوں کا وجود ہے،لیکن اسپین کے پاکستانی سفارت خانے اور قونصلیٹ آفس بارسلونامیں بھی علامہ اقبالؒ کے یوم ولادت کی کوئی تقریب منعقد نہیں کی گئی کوئی کیک نہیں کاٹا گیا،حالانکہ ہمارے یہ سرکاری ادارے مقامی کمیونٹی کو ہمارے کلچر، تہذیب و تمدن، شعار اور ہمارے ملک کو بنانے والوں کے حوالے سے معلومات فراہم کرتے ہیں۔ 9نومبر شاعر مشرق اور مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ کے مسلمانوں کےلئے علیحدہ وطن کے دیکھے گئے خواب اور پھر اُس خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے تک کے لمحات، اُن کی ولولہ انگیز شاعری،اُن کا فلسفہ اور لکھی گئی تصانیف کے بارے میں اسپینش کمیونٹی کو معلومات فراہم کرنے کا بہترین موقع تھا جو ضائع کرنا سمجھ سے بالاتر ہے، پاکستان میں علامہ اقبال ڈے کی چھٹی نہیں، لیکن دوسرے ممالک میں قائم پاکستان کے سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو قومی شاعر کے یوم ولادت پر کسی قسم کی تقریب منعقد نہ کرنے کی بھی کھلی ’’ چھٹی ‘‘ ہے۔ آج اپنے محسنوں کو بھولنے کی جو روایت شروع ہوئی ہے، آنے والی نسلیں اس روایت کو دہرائیں گی اور ہمیں بھی یاد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔

 

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website