counter easy hit

عمران خان پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ (ن) سے اتحاد کریں گے یا اپوزیشن میں بیٹھیں گے؟

تحریک انصاف کے قائد عمران خان کا انتخابات کے نتیجہ میں معلق پارلیمنٹ کو پاکستان کی بد قسمتی قرار دیتے ہوئے کہنا ہے کہ ملکی ضرورت ایک طاقتور حکومت ہے جو ملک کو در پیش معاشی بحران اور مسائل سے نجات دلا سکے۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر واضح کیا کہ ن لیگ یا پیپلز پارٹی جیسی جماعت سے کسی اتحاد کے بجائے اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دیں گے۔ ان کے نزدیک ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنما کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ان سے ملکر حکومت بنانے سے بہتر ہے اپوزیشن میں بیٹھ جائیں۔عمران خان اور ان کی جماعت جس کے حوالہ سے عام تاثر یہ ہے کہ انہیں حکومت کا موقع ملنے والا ہے جس کیلئے باقاعدہ بندوبست ہوتا نظر آیا ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ انتخابات کے آخری مرحلہ میں یہ کہنے پر کیوں مجبور ہوئے کہ معلق پارلیمنٹ ملک کی بد قسمتی ہو گی۔ کیا انتخابات کے نتیجہ میں کوئی ایک جماعت اس پوزیشن میں آ سکتی ہے کہ جو حکومت سازی کیلئے پیاروں کی محتاج نہ ہو اور کیا ایسی حکومت بن سکتی ہے، چل سکتی ہے اور عوام کی امیدوں اور اعتماد پر پورا اتر سکے گی۔ جہاں تک عمران خان کی جانب سے معلق پارلیمنٹ کو ٹارگٹ کرنے کا سوال ہے تو انہیں خوب معلوم ہے کہ انتخابی نتائج کیا ہیں۔البتہ وہ عوام کے اندر یہ پیغام عام کرنے کیلئے سرگرم ہیں کہ کسی ایک جماعت پر اعتماد کا اظہار کیا جائے تا کہ اسے فیصلوں اور من مانی کا موقع مل سکے لہٰذا آج ملک جس بحرانی کیفیت سے دوچار ہے تو اس کی بڑی وجہ ہی ایک جماعت کو ملنے والا بھاری مینڈیٹ تھا جس نے خود کو با اختیار سمجھتے ہوئے خارجہ اور داخلہ محاذ پر بعض ایسے فیصلوں کا ارتکاب کیا جو اسٹیبلشمنٹ کو ہضم نہ ہو پائے اور ملک کے اندر گزشتہ پانچ سال میں ایک نفسیاتی کیفیت طاری رہی جس کے باعث ملک میں سیاسی، معاشی اور انتظامی استحکام قائم نہ ہو سکا اور منتخب حکومت کو کمزور بنانے اور اسے دفاعی محاذ پر رکھنے کیلئے خود عمران خان اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں نے اس پر کردار ادا کیا۔ اور یہاں تک کہ پاناما لیکس آنے کے بعد یہ عمران خان ہی تھے جنہوں نے خالصتاً اس تکنیکی مسئلہ پر پاناما لیکس کے دیگر متاثرین کو چھوڑ کر نواز شریف اور ان کے خاندان کو ٹارگٹ بنائے رکھا جس کے نتیجہ میں سیاسی محاذ گرم رہا۔نواز شریف کی عدالتی نا اہلی ممکن بنی اور بعد ازاں بھی نئے انتخابات تک ایک دوسرے کو دبانے، گرانے اور سیاسی منظر سے ہٹانے کا سلسلہ جاری رہا۔ وہ کام جو بعض عناصر خود نہیں کر سکتے تھے وہ عمران خان نے سیاسی محاذ پر کر دکھایا اور محسوس یہ ہوتا ہے کہ اب پاکستان میں شاید ایسی حکومت ممکن نہ ہو سکے جو فیصلہ سازی میں آزاد اور خود مختار ہو جس کیلئے ملک میں بہت کچھ ہو چکا ہے اور بہت کچھ ہوتا نظر آ رہا ہے اور خود عمران خان کو اس کا اچھی طرح ادراک ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ انہیں الیکٹیبلز کہاں سے اور کیونکر ملے۔ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ عمران خان جیسے شخص کو ایوان میں اکثریت مل سکے اور من مانی کی آزادی بھی ۔ ان کی حکومت بنے گی تو بہت کچھ ساتھ ملانا اور چلانا پڑے گا۔ اور جہاں تک خود عمران خان کا سوال ہے تو اس پر بھی حتمی فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہو گا۔ جو خان صاحب کو یہاں تک لائے ہیں۔ جو عمران خان کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ خود اداروں کے حوالے سے ان کا نکتہ نظر کیا ہے؟۔عمران خان کو جاننے والے جانتے ہیں کہ دباؤ ایک خاص سطح تک لیتے ہیں۔ خاموشی ایک خاص حد تک اختیار کرتے ہیں اور دل کی بات زبان پر لانے میں دیر نہیں لگاتے۔ لہٰذا ان پر اسٹیبلشمنٹ کتنا اعتماد کر پائے گی؟ یہ اہم سوال ہے اور امکان اس امر کا ہے کہ کوئی بھی جماعت انتخابی نتائج میں سو کی حد کراس نہیں کر پائے گی اور آنے والی حکومت مخلوط ہی ہو گی۔ دوسری جانب حالیہ تنقید میں محسوس کئے جانے والے سگنلز سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن کو نہ تو منظر سے ہٹاٹا جا سکتا ہے اور نہ ہی دیوار سے لگایا جا سکتا ہے لہٰذا سسٹم کو چلانے کے خواہاں اب ڈھکے چھپے انداز میں یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ پنجاب مسلم لیگ سے چھیننے اور سندھ میں پیپلز پارٹی کو کارنر کرنے کی کوشش ہوئی تو پھر شاید حکومتیں بن نہ پائیں، بن گئیں تو چل نہ پائیں گی۔ لہٰذا کسی کو اتنی اکثریت اور اختیار نہیں ملے گا جو دوسروں کو روند ڈالے اور اپنی من مانی قائم کرے۔