counter easy hit

غریب کی عید کیسی گزرتی ہے؟

خدا تعالیٰ کا ہر انسان کو دیا گیا بہترین تحفہ دماغ ہے جس کا استعمال کرنا بندے کے خود کا کام ہے۔ عید کے موقع پر اس خدا کے تحفے کے اندر کئی سوالوں نے جنم لیا جن میں سے چند یہ ہیں۔ عید کیسے منائی جاتی ہے اور عید کی کتنی اقسام ہیں؟

اساتذہ اور والدین سے درس ملا ہے کہ اسلام کے مطابق عید خوشی اور سادگی کے ساتھ ایک دوسرے سے ملنے ملانے کا نام ہے۔ اس دن میں اوّلین ترجیح اپنے ارد گرد کے غریبوں اور مدد گاروں کی مدد کر کے انہیں بھی عید کی خوشیوں میں شامل کرنا ہے مگر افسوس کے ساتھ عملی طور پر عید اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ خوبصورت تیار کرنے کا نام عید ہے۔

ایک عید وہ بھی ہے جو ہر غریب اپنی اچھی دیہاڑی بنا کر یا مکمل تنخواہ حاصل کرنے کے بعد مناتا ہے۔ اس خوشی میں مزید اضافہ کرنے کے لیے گھر میں عرصے بعد عمدہ کھانے تیار ہو جاتے ہیں اور یہ خوشی اس کے لیے عید سے کم نہیں ہوتی۔

غریب طبقہ چاند دیکھ کر نہیں بلکہ اپنی جیب کی طاقت دیکھ کر عید مناتا ہے۔ مگر غریب پھر بھی عید کے عالمی دن کے موقع پر عید منا رہا ہے تاکہ اگلا ہماری خراب حالت نظر آنے کے بعد یہ نا پوچھے کہ تم عید کیوں نہیں منا رہے؟

غریب طبقہ عید کا عالمی دن ‘مہذب معاشرے’ کی فہرست میں اپنا نام برقرار رکھنے کے لیے منا رہا ہے۔ غریب اس عید کی تیاریوں کے لیے شاپنگ سینٹر کی جانب رخ کرتا ہے۔ کوشش کرتا ہے کہ ایسے شاپنگ سینٹر کا رخ کیا جائے جہاں کپڑوں کی قیمت اتنی ہو جتنی اس کی جیب اجازت دے سکے تاکہ کپڑا پسند آنے کے بعد قیمت معلوم ہونے پر ہارٹ اٹیک کا سامنا نا کرنا پڑے اور ساتھ میں دکان والے اور اپنی بیگم کے سامنے بھی شرمندگی سے بچا جا سکے۔

غریب جو عرصہ بعد عید کی وجہ سے گھر میں لذیذ کھانوں کے اہتمام کرنے کا ارادہ کرتا ہے، مرغی کا گوشت خریدنے کے لیے دکان کا رخ کرتا ہے۔ دکاندار غریب کی شکل دیکھتا ہے پھر غریب کو اوقات سے بڑھ کر لذیذ کھانوں کا ارادہ کرنے کی سزا میں چکن کی قیمت میں دگنا اضافہ کر دیتا ہے۔ دوسری اشیاء میں بھی غریب کو ایسی ہی ذلت بھری سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

عید کے موقع پر غریب اپنی پوری کوشش کے ساتھ نئے کپڑے پہن لیتا ہے پھر نماز عید کی ادائیگی کے بعد جن مہذب احباب سے عیدی ملنے کی امید ہوتی ہے انہیں خوش اخلاقی دکھاتے ہوئے تین بار گلے ملتا ہے ورنہ ایک بار ہی گلے ملنے پر اکتفا کرتا ہے۔ پورا دن دوست احباب سے ملنے میں گزارتا ہے اور دل ہی دل میں عیدیوں کا جوڑ توڑ کرتا رہتا ہے۔ اس طرح ایک غریب کی عید گزر جاتی ہے۔