counter easy hit

کسان اور ہماری حکومت

میرے غذائی قلت والے کالم کے بعد میرے قارئین نے مجھے مجبور کردیا ہے کہ میں اس کے بارے میں مزید لکھوں تا کہ ان کے دلوں کو کچھ سکون مل سکے۔ مجھے کچھ ایسے پیغامات وصول ہو رہے ہیں کہ ہم ایک بڑا زرعی ملک ہونے کے باوجود بنیادی ضرورت کی غذائی اجناس کی پیداوار میں بھی خود کفیل نہیں ہو سکے اور بھارتی پنجاب جس کی زرعی زمینیں پاکستانی پنجاب سے کم زر خیز ہیں اگر پورے بھارت کا پیٹ بھر سکتا ہے تو پاکستانی پنجاب بھارت کے مقابلے میں آبادی کے لحاظ سے چھوٹے پاکستان کا پیٹ کیوں نہیں بھر رہا۔ کیا ہمارے کسان نالائق ہیں یا انھوں نے کاشتکاری چھوڑ کر کوئی اور پیشہ اختیار کر لیا ہے جس کی وجہ سے زرعی پیداوار میں کمی ہو گئی ہے لیکن میری ناقص اطلاعات کے مطابق اس کی وجوہات کچھ اور ہیں۔

بھارتی حکومت اپنے کاشتکاروں کو ہر ممکن سہولیات فراہم کرتی ہے جن میں کاشتکاری میں استعمال ہونے والی ہر قسم کی مشینری اور کھادوں اور ایندھن و بجلی پر رعایت شامل ہے بلکہ بعض سہولیات تو مفت بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ جب کہ پنجاب کی صنعتکار حکومت اپنے ہمہ جہت وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی قیادت میں پچھلے نو سال کی حکمرانی کے دوران کسان دوست فیصلے کرنے سے قاصر رہی ہے۔ وجہ وہی ہے کہ ان کی توجہ کاروبار اور سڑکوں کی تعمیر پر ہے اور کسانوں کیلیے سہولتوں میں اضافہ کی بجائے ان کو مزید قرضوں کے بوجھ تلے دبایا جا رہا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ کی صوبائی اور وفاقی حکومت کاشتکاروں کیلیے ابھی تک کوئی ایسی پالیسی نہیں بنا سکی جو کہ مستقل بنیادوں پر ان کو ریلیف فراہم کر سکے۔

اس وقت پاکستان میں کھاد کی قیمتیں سب سے زیادہ ہیں۔ حیرت انگیز حد تک مہنگی زرعی ادویات ہیں اور بجلی کے بلوں میں رعایت کے باوجود بجلی کی کمی کی وجہ سے اور زرعی بجلی کی قیمت یکساں نہ ہونے سے کسان مشکلات کا شکار ہے کہ کمرشل بجلی کی طرح زرعی بجلی کے ریٹ بھی دن کے چوبیس گھنٹوں میں مختلف ہوتے ہیں اور کسان حکومت کی رعایت کو سمجھ ہی نہیں پاتے اور جب بل آتا ہے تو ہوش ٹھکانے آ جاتے ہیں۔ نہری پانی کی ایک تو کمی ہے دوسرا  ا س کے استعمال کا طریقہ کار اتنا مشکل ہے کہ یہ ہمت ہمارے کسانوں کی ہی ہے جو اپنی رات کی نیندیں برباد کر کے اپنی فصلوں کو سیراب کرتے ہیں تا کہ کم لاگت فصل اگا کر اپنے حالات سنوار سکیں۔

شہروں کے ٹھنڈے ٹھار دفاتر میں بیٹھ کر تپتی دھوپ میں پگھلتے کسانوں کے بارے میں پالیسیاں بنانا کوئی نئی بات نہیں کہ یہ کام پچھلے ستر سال  سے ہوتا آیا ہے اور آیندہ بھی یہی بابو جن کا کاشتکاری سے دور کا بھی واسطہ نہیں کسانوں کی قسمت کے فیصلے کرتے رہیں گے۔ ہمارے آج کل کی دیہی زندگی ان تمام خرابیوں کا مرکز بن چکی ہے جو کسی کسان دشمن حکومت میں ممکن ہو سکتی ہیں۔ دیہاتوں کے معصوم اور مظلوم لوگوں سے اچھے مستقبل کے نوید سنا کر ووٹ حاصل کرنے کے بعد ہمارے منتخب نمایندے جب بذات خود اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں تو ان کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں رہتا کہ جن ووٹروں سے وہ دن بدلنے کی آس پر ووٹ حاصل کر کے اسمبلی کے ممبر بنے ہیں وہ کن حالات میں ہیں اور جب یہی نمایندے ہی کسانوں کی آواز بلند نہیں کرتے تو شہروں کے رہنے والے حکمرانوں سے گلہ کرنا فضول ہے۔

میں جو خود ایک بنیادی طور پر ایک دیہاتی آدمی ہوں یہ خواہش پالتا ہوں کہ قلم چلاتے چلاتے عمر گزر گئی اب ہل چلایا جائے لیکن جب دیہات کی باتیں پہنچتی ہیں کہ وہ کن حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں تو یہی قلم ہی روزی کیلیے غنیمت محسوس ہو تا ہے اور دل میں خواہشات کو دبا لیتا ہوں کہ دیہات کی باتیں کرنے سے دل دکھتا ہے ورنہ کسی کھیت میں ترتیب کے ساتھ چلا ہوا ہل جو منظر پیش کرتا ہے وہ کاغذ کے کسی صفحے پر کیسے اُبھارا جا سکتا ہے۔ لیکن دل اس بات سے ضرور دکھتا ہے کہ ایک بڑے زرعی ملک میں کاشتکاری انتہائی مشکل کر دی گئی ہے۔

مجھے یاد ہے کہ ایوب خان کے زمانے میں ان کے نام سے فیصل آباد میں زرعی تحقیق کیلیے ایک ادارہ بنایا گیا جو کہ آج بھی ایوب انسٹی ٹیوٹ کے نام سے موجود ہے اس ادارے نے زرعی تحقیقات میں کئی کمال دکھائے اور پاکستان میں ایسے ایسے پھل اور فصلیں پیدا کر لیں جن کی ہم مثالیں دیتے آئے ہیں۔ جس طرح ایوب خان کے زمانے کی صنعتوں کا ذکر ہوتا ہے اسی طرح زراعت میں جو ترقی ہوئی وہ بھی ان کے دور کی ہی مرہون منت ہے۔ ان کی خوش قسمتی تھی کہ انھیں مغربی پاکستان کیلیے ایک کاشتکار گورنر مل گیا چنانچہ ایوب خان اور امیر محمد خان نے زراعت میں انقلابی اقدامات کیے۔

اگر موجودہ حکمرانوں کی بات کی جائے تو ان کی تمام تر توجہ شہروں کی ترقی پر ہی ہے اور ان کی پارٹی کے دیہاتوں سے منتخب ہو کر آنے والے  اسمبلی ممبران میں اتنی جرات ہی نہیں کہ وہ ان شہری حکمرانوں کے سامنے اپنے کسان ووٹروں کی مشکلات کو بیان ہی کر سکیں، کجا کہ ان مشکلات کے حل کیلیے کوئی قابل عمل منصوبہ ہی منظور کرائیں۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ جو کہ ہر وقت اس کوشش میں رہتے ہیں کہ وہ اپنے انقلابی اقدامات سے عوام کی زندگی بدل سکیں تو ان کو اپنے دیہاتی ووٹروں پر بھی فوری توجہ دینی ہوگی اور دور رس پالیسیاں بنانی ہوں گی اس کیلیے صبر اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے کہ ان پالیسیوں کے نتائج فوری طور پر ممکن نہیں ہوتے۔ یہ کوئی ضمنی الیکشن نہیں کہ شام تک محنت کا پھل مل گیا۔ شہری اور کسی حد تک دیہاتی وزیر اعلیٰ کیونکہ وہ ایک وسیع زرعی فارم میں رہتے ہیں سے درخواست ہے کہ وہ شہروں کو ترقی ضرور دیں اور شہر تو وقت کے ساتھ خود ہی ترقی بھی کر لیتے ہیں مہربانی فرما کر دیہات پر بھی توجہ دیں جن کا کوئی پُر سانِ حال نہیں۔ ان کو صرف کھایا جاتا ہے کھلایا نہیں جاتا۔ کسان بڑے توکلی ہوتے ہیں یہ آپ کو مخلصانہ دعائیں دیں گے ان کی دعائیں لیجیئے…!