counter easy hit

سیاسی مغفرت کیلئے انتخابی تعزیت

قاسم میرے بچپن کا دوست ہے۔ گزشتہ روز میں اس کے گھر ہی تھا۔ قاسم ایم بے اے کی ڈگری حاصل کرنے کے باوجود بےروزگار ہے۔ اس جیسے ناجانے کتنے نوجوان اس ملک میں موجود ہوں گے جنہوں نے تعلیم تو حاصل کرلی مگر حکومت انہیں ملازمت دینے میں ناکام رہی۔ قاسم مجھ سے مائکرو کاروبار کے حوالے سے گفتگو کر رہا تھا، یہ بات میرے لئے اتنہائی رنجیدہ کردینے والی تھی کہ اس ملک کا ایک ایم بے اے ڈگری ہولڈر نوجوان مجھ سے معلومات حاصل کر رہا تھا کہ آلو کے قتلے تلنے والی مشین کتنے تک کی آجائے گی؟کیا میں اپنی موٹر سائیکل بائکیا پر چلا لوں ؟اور کسی دوکان پر پارٹ ٹائم جاب کرلوں۔ اسے تو میں سمجھا رہا تھا کہ کام کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے محنت مزدوری کرنا بہت بہتر ہے۔ لیکن دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ کہاں ہیں وہ قرآن و سنت کا نظام نافذ کرنے والے، کہاں ہیں تبدیلی کے دعوےدار، کہاں ہے وہ دلوں کا وزیراعظم، اور عوام کو طاقت کہنے والے۔ ۔

میری انہیں سوچوں اور ہماری باتوں کے درمیان ایک دم باہر گلی سے الیکشن کے موسم میں سنائی دینے والے زندہ باد مردہ باد کے فلق شگاف نعرے سنائی دینے لگے۔ ایسا معلوم ہورہا تھا کہ کوئی ریلی گزر رہی ہے۔ اچانک گاڑیوں کی ایک بڑی تعداد قاسم کے گھر کے پاس رکی۔ ڈبل کیبن گاڑیوں سے سیکیورٹی اہلکار بھی اتر کر قاسم کے دروازے کی جانب بڑھنے لگے۔ قاسم نے غصیلی نظروں سے میری جانب دیکھ کر پوچھا کیا کسی کے خلاف کچھ لکھا ہے؟نہیں بھائی! میں صرف عوامی مسائل پر لکھتا ہوں۔ یہ نامعلوم کون ہیں۔ میں نے مطمئن انداز میں جواب دیا۔

غیر سیکیورٹی اہلکاروں نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ قاسم کی حالت دیکھ کر میں ہی دروازے کی جانب بڑھا۔ دروازہ کھولا تو ایک صاحب سامنے آئے اور کہنے لگا منسٹر صاحب تعزیت کرنے آئے ہیں۔ میں نے اور قاسم نے ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھا۔ وہ صاحب دوبارہ بولے کہ آپکی خالہ کا دیور کچھ عرصے پہلے ایک حادثے میں ہلاک ہوا تھا۔ اسی کی تعزیت کرنے آئے ہیں۔ قاسم نے ان صاحب کو بتایا کہ اسکی خالہ کا تو کوئی دیور نہیں بلکہ اس کی تو کوئی خالہ ہی نہیں۔ لیکن وہ شخص بضد تھا کہ نہیں محترم آپ کے والد صاحب سے میرے اچھے مراسم ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے سلیم نائی کی دوکا ن پر مجھے خود بتایا تھا۔ قاسم نے ذہن پر کافی زور دیا تو اسے یاد آیا کہ اس کے والد کی خالہ کا دیور ایک ٹریفک حادثے میں آج سے کچھ دو سال پہلے مر گیا تھا۔ شاید ان صاحب سے والد نے انہیں کا تذکرہ کیا ہو۔

ہم نے ان صاحب سے ان کا تعارف پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک سیاسی کارکن ہیں اور منسٹر صاحب جو کہ اس حلقے سے دوبارہ انتخابی میدان میں اتر رہے ہیں وہ محلے کے لوگوں کے دکھ درد میں شامل ہونے آئے ہیں۔ سیاسی کارکن صاحب نے قاسم سے پوچھا کہ آپ کے والد کہاں ہیں۔ ان کو بلا لیں۔ صاحب نے دعا کرنی ہے اور پھر گراں نہ گزرے تو خالہ کا گھر بھی دکھا دیں تا کہ وہاں بھی دعا کرلی جائے۔ آخر اپنے ہی اپنوں کو دکھ درد میں یاد رکھتےہیں۔ قاسم خاموش ہوگیا۔ اس کی آنکھوں سے باپ کی یادیں چھلک رہی تھیں۔ میں نے آگے بڑھ کر منسٹر صاحب اور ان کے چیلوں کو آگا ہ کیا کہ قاسم کے والد صاحب آج سے چھ ماہ قبل دوائیوں کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ یہ سننا تھا کہ سب نے کمرے میں داخل ہوکر دعا کے لئے ہاتھ بلند کردیئے اور پھر منسٹر صاحب اور ان کے کارکنوں نے قاسم کے والد صاحب کیلئے دعائے مغفرت کی اور ان کی خالہ کے دیور کیلئے بھی۔ بعد ازاں یہ قافلہ قاسم کے والد کی خالہ کے گھر بھی روانہ ہوا کیوں کہ اتفاق سے ان کا انتقال بھی چند ماہ قبل ہوچکا تھا۔

اگلے ہی روز فیس بک کی بدولت حلقے کے تمام امیدواروں کو معلوم ہوا کہ زاہد صاحب(قاسم کے والد) کا انتقال ہوگیا ہے۔ اور منسٹر صاحب نے اپنی کابینہ کے ہمراہ ان کے بیٹے سے تعزیت بھی کی ہے۔ پھر کیا تھا اپوزیشن کی جماعت کے امیدوار، 10کارکنوں پر مشتمل جماعت کے امیدوار غلام قوم کے آزاد امیدوار اور ناجانے کس کس سیاسی شخصیت نے قاسم کے گھر کا رخ کیا اور اسے کے والد کیلئے دعائے مغفرت کی۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ قاسم کے والد کی بیماری کے دوران میں نے اور قاسم نے سرکاری اسپتال کے کئی چکر لگائے تھے کہ ان کا علاج سرکاری اسپتال میں ہوجائے کیوں کہ پرائیویٹ اسپتالوں کے اخراجات اب ان غریبوں کے بس سے نکل گئے تھےلیکن سرکاری اسپتال میں ادویات نہ ہونے کی وجہ سے ان کا علا ج وہاں نہ ہوسکا اور وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

یہ کہانی صرف ایک قاسم کی نہیں آج کل اس ملک کے ہر محلے میں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما دعائے مغفرت کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ دعا ان افراد کیلئے بھی جاتی ہیں جن کی شائد اب ہڈیاں بھی گل گئی ہوں۔ میری پاکستان کے ہر شہری سے گزارش ہے کہ ان افرادکو ووٹ دیں جو آپ کے علاقے میں سرکاری اسپتال بنا سکیں، ایسے سرکاری اسپتال جہاں آپکے خاندان کے علاج کے لئے ڈاکٹر بھی موجود ہوں اور ادویات بھی، ایسے افراد کو ووٹ دیں جو آپ کے علاقے میں سرکاری اسکول و کالج بنائیں، جو آپ کے علاقے میں ترقیاتی کام کرائیں، آپ کا ووٹ ہی اب اس ملک اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔