counter easy hit

تبدیلی اور دانشور۔۔۔۔۔۔رضوان جرال

لاہور (ویب ڈیسک) تحریک انصاف کی حکومت تبدیلی کا نعرہ لیے ہوئے اقتدار میں آئی اور دو نہیں ایک پاکستان کا نعرہ بھی لگایا۔اب میرے جیسے جذباتی لوگ دن رات حکومت کی کارکردگی کو لیکر اپنا سر پیٹ رہے ہیں کہ کہا ں ہے تبدیلی ،کدھر ہے تبدیلی ، جس کا نعرہ اور خواب تحریک انصاف نامور کالم نگار رضوان جرال اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کی حکومت نے ہمیں دکھایا تھا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تبدیلی کیا ایک رات یا ایک مہینے میں آنے والی چیز ہے۔تبدیل ایک تدریجی عمل ہے اور وہ اپنے رائج مراحل سے گزرے گااور پھر آپ کو تبدیلی کی شکل نظر آئے گی۔جب ن لیگ سے حکومت تحریک انصاف کو منتقل ہوئی اس وقت نوے ارب ڈالر سے زائد بیرونی قرضوں کا بوجھ اس ملک خداداد پر پڑا ہوا تھا۔تقریبا سولہ ارب ڈالر کا کرنٹ خسارہ ،لگ بھگ ستائیس سو ارب کا بجٹ خسارہ،بارہ سو ارب کے گردشی قرضوں سے لیکر ریلوے،پی آئی آئے اور پاکستان سٹیل ملز کے اربوں کے خسارے شامل ہیں ۔ اور اب ہم یہ آس لگا کر بیٹھے ہیں کہ ہم رات سوئیں اور صبح سب کچھ ٹھیک ہو جائے اور ہیجانی طبیعت کے مالک کچھ تجزیہ نگار روز حکومت کو تبدیلی نہ لانے پر ملامت کرتے ہیں ۔اب سمجھ میں آرہا ہے کہ انھیں کونسی تبدیلی چاہئے۔کیونکہ عام آدمی کے نزدیک تبدیلی کاعمل شروع ہو چکا ہے اور اس کے اثرات بھی عام آدمی تک پہنچ رہے ہیں ۔اگر نہیں پتا چل رہا تو وہ ہمارے ان ہیجانی اور ایک مخصوص جماعت سے وابستہ دانشوراور تجزیہ نگار ہیں ۔جس ملک کو چلایا ہی قرض پر ہو تو جب قرضوں اور بیرونی امداد سے ہاتھ کھنچیں گے تو مشکلات تو آئیں گی۔بیرونی طاقتیں کبھی نہیں چاہیں گی کہ پاکستان اپنے پاو¿ں پر کھڑا ہوااور ہمیشہ قرض خواہوں کی طرح بیرونی طاقتوں کے سر نگوں رہے مگر مجھے قوی امید ہے کہ پاکستان اس دلدل اور لولی لنگڑی معیشت جو تحریک انصاف کو ورثے میں ملی اس گرداب سے بھی نکلے گا۔پچھلے دنوں اسلام آباد میں ایوان صدر میں معروف شاعر اسد اللہ غالب کی یاد میں وزارت اطلاعات نے ایک شاندار مشاعرے کا اہتمام کیا جو پچھلے دس سال کے جمہوری دور میں کسی بھی شاعر کیلئے حکومتی سطح پر پہلی دفعہ اس کے فن کا اعتراف تھا۔مشاعرے کے بعد فواد چوہدری صاحب سے عشایئے پر جب بات چیت ہوئی تو انھوں نے اس بات کا اعادہ ظاہر کیا کہ ہم کچھ چیزوں کے حوالے سے ہنگامی اقدامات کرنے جا رہے ہیں ۔جس میں سب سے پہلے ہر بڑے شاعر کے دن کے حوالے سے حکومتی سطح پر ایک پر وقار تقریب کا اہتمام کیا جائے گا اور اس شاعر کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جائے گا۔دوسرا پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں جس چیز کا فقدان ہے وہ ہے مواقع کا حصول ۔فواد چوہدری نے کوک سٹوڈیو کی طرز پر لوکل فنکاروں کے ساتھ ایک اعلی پائے کا ایک سیزن شروع کرنے کا بھی اشارہ دیا جس کے ابتدا ئی مراحل مکمل ہو چکے ہیں ۔تیسری اہم بات جس پر کسی حکومت نے توجہ نہیں دی وہ ہے ہمارا ثقافتی ورثہ،ہمارے موسیقی کے ساز ہماری تہذیب اور کلچر۔بہت سارے آلات موسیقی جو پاکستان کی پہچان تھے مگر حکومت کی عدم توجہ کے باعث نا پید ہو تے جا رہے تھے اور ان کو بجانے والوں کا بھی کوئی پر سان حال نہیں ۔حکومت ایسے آلات موسیقی اور فنکاروں کی بحالی کیلئے عملی اقدامات کر رہی ہے۔میلے ٹھیلے اور سرکس ہماری پہچان ہوتی تھی اور لوگوں کیلئے ایک سستی تفریح کا ذریعہ بھی مگر سابقہ جمہوری حکومتوں نے ہمیشہ ان پر پابندی عائد کر کے رکھی۔ہمیں ےاد نہیں پڑتا کہ لاہور میں پچھلے دس سالوں میں سرکس یا کسی میلے کا حکومتی سطح پر انعقاد کیا گیا ہو۔وزارتِ اطلاعات نے عوام کو سستی تفریح کیلئے بھی باقاعددہ منصوبہ بندی شروع کردی ہے اور بہت جلد ہی ان کا انعقاد ہونا شروع ہوجائے گا۔وزارتِ اطلاعات اور فواد چوہدری صاحب اگر یہ کام کرتے ہیں تو یہ ایک لائق تحسین عمل ہے کیونکہ اِس سے عوام کو تفریح کے ساتھ بہت سارے لوگوں کو روز گار کے مواقع بھی ملیں گے۔مگر اب میرے کچھ ارسطو ٹائپ دانشور یہ سوال اُٹھائیں گے کہ کیا یہ تبدیلی ہے جہاں ملک کی معیشت ٹھیک نہیں کوئی محکمہ کام نہیں کر رہا تو میرا اُن کیلئے جواب ہے کہ جناب یہی تبدیلی ہے اور تبدیلی آنی ہی ہے چاہے آپ کو پسند ہویا نہ ہو۔ اور اصل تبدیلی وہی ہے جس سے عوام مستفید ہوں نہ کہ کوہسار ر اور فائیو سٹارز ہوٹلوں میں بیٹھ کر مہنگی کافیاں اور پُر تعیش کھانے والے ۔ ایک اہم مسئلے پر میں حکومت کی توجہ دِلانا چاہتا ہوں اور حکومت کو اِس حوالے سے غوروخوض کرنا چاہیے۔چند دِن پہلے گا و¿ں گیا تو وہاں آلووں کے آڑھتیوں سے ملاقات ہوئی اُن سے جب دریافت کیا تواُن کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں آلو وافر مقدار میں کاشت ہوتا ہے اوراِس کو ہم باہر نہیں بھجوا سکتے ۔میں نے وجہ پوچھی تو پتا چلا کہ 5سو کی آلو کی بوری کے اوپر پانچ سو زائد کا حکومت نے ایکسپورٹ ٹیکس لگا رکھا ہے۔ہمیں کیا بچنا ہے اگر ہم نے ٹیکس دینا ہے۔مجھے اِس کی صداقت کے حوالے سے کافی تحفظات ہیں کہ حکومت نے ایسا کیا ہے۔اگر ایساہے تو حکومت کو فوری طور پر اِس ٹیکس کوختم کرکے آلو کے کاشتکاروں اور آڑھتیوں کو ریلیف دینا چاہیے کیونکہ اِس میں فائدہ ہمارا ہے اِس میں فائدہ پاکستان کا ہے کیونکہ ایکسپورٹ سے زر مبادلہ پاکستان ہی آئے گا