counter easy hit

آس پاس کھانے میں تاخیر ۔ موت کی تعزیر

ابھی کھانا خود گرم کرو پر ہلکی پھلکی موسیقی چل رہی ہے۔ خواتین و حضرات میں یہ کشمکش جاری ہے کہ کھانا گرم کرنے کے اختیارات کس کو منتقل ہوں گے۔ خواتین خم ٹھونک کر میدان میں اتری ہوئی ہیں (چاہے ان کی تعداد قلیل ہی سہی) کہ مردوں کو اپنا کھانا خود گرم کرنا چاہئیے۔ دوسری طرف مرد حضرات کی غیرت گاہے بگاہے اس ناہنجار نعرے سے جوش میں آ جاتی ہے اور پھر مرد حضرات بھی احمقانہ بینرز اٹھائے مقابلے پر اترتے نظر آتے ہیں۔ جبکہ کثیر تعداد میں خواتین و حضرات اس جوتم پیزار سے بیزار ہیں۔ ان خواتین میں ہماری اہلیہ محترمہ اور حضرات میں اہلیہ محترمہ کے شوہر نامدار یعنی ہم خود بھی شامل ہیں۔

کسی بھی مثبت پیغام کی ترویج میں سب سے اہم جو عنصر ہوتا ہے وہ اس پیغام کی ٹائمنگ اور ٹارگٹ آڈیئنس یعنی منتخب صارفین کا چناؤ ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اٹھائے جانے والے چند بینرز نہ صرف یہ کہ پاکستان کے نیم خواندہ اور مردانہ حاوی معاشرے کے لیے قبل از وقت تھے بلکہ اس کے ردعمل کے بارے میں بھی پہلے سے کسی قسم کی سوچ بچار غالباً نہیں کی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سرگودھا کے کسی گاؤں میں ایک خاوند کا اپنی بیوی کو گرم کھانا نہ دینے پر مار دینے کے خلاف ایک منفرد نوعیت کااحتجاج بجائے اس کے کہ ایک مثبت سوچ کو جنم دینا اور معاشرے میں ایک صحت مند بحث کا آغاز ہوتا، اس کے بجائے یہ احتجاج تنازعے کا شکار ہو گیا اور بحث کا مرکزی نقطہ گھروں میں خواتین پر ان کے گھر والوں کے جانب سے کیے جانے والے تشدد سے ہٹ کر خواتین اور مردوں کے آپس کے مقابلے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھا دینے پر مرتکز ہو گیا۔ اب سوشل میڈیا پر دھڑا دھڑ اس کی موافقت اور مخالفت میں دلائل دیئے جا رہے ہیں اور زور و شور سے ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کی سعی لا حاصل جاری ہے۔ اس ساری تگ و دو کا نتیجہ اس سے زیادہ کچھ نہیں نکلا کہ لوگوں کو وقت گذاری کے لیے شغل ہاتھ آ گیا ہے اور اصل موضوع اور مسئلے کی حساسیت اور اہمیت ختم ہو کر رہ گئی ہے۔

یہ مسئلہ اب صرف سوشل میڈیا استعمال کرنے والے لوگوں کی حد تک رہ گیا ہے۔ جب کہ جس جگہ پیغام پہنچانے اور تربیت دینے کی ضرورت تھی وہاں پر عدم توجہی کے سبب اس طرح کے واقعات کی روک تھام کو ممکن نہیں بنایا جا سکا چناچہ آج کی اخبار کی خبر کے مطابق گوجرانوالہ میں سفیان نامی نوجوان نے اپنی دادی اور ایک بہن اقراء کو مشتعل ہو کر محض اس بات پر ڈنڈے سے وار کر کے قتل کر دیا کہ بہن نے اپنے بھائی کو کھانا پیش کرنے میں تاخیر کی تھی۔ اس افسوس ناک واقعے میں ایک بہن سدرہ کو تشویش ناک حالت میں اسپتال پہنچایا گیا جہاں پر وہ اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے۔

پاکستان جیسے ملک میں جہاں کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ خواندگی کا تناسب قابل اطمینان نہیں ہے۔ انسانی حقوق کے ضمن میں آگاہی کا شدید فقدان ہے۔ میعاری تعلیم ایک خواب بن کر رہ گئی ہے اور مرد اور عورت کے درمیان برابری کا پلڑا تشویش ناک حد تک غیر متوازن ہے، ایسے ملک میں خواتین کے حقوق اور برابری کے لیے سنجیدہ اقدامات پر زور دینے کی بجائے غیر سنجیدہ نعروں سے خواتین کے حقوق کی مہم کو نقصان پہنچانا ایک ناقابل تحسین عمل ہے۔ اور اگر یہی رویہ مستقبل میں روا رکھا گیا تو بہتری کی امید بہت کم ہو کر رہ جائے گی۔

اس ضمن میں سب سے بڑی اور بنیادی ذمہ داری ماؤں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں میں یہ شعور اجاگر کریں کہ ہر دو اصناف یکساں اہمیت رکھتی ہیں اور محض جنس کی بنیاد پر بچوں میں تفریق رکھنے کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ جس قدر اہمیت اولاد نرینہ کو دی جاتی ہے اسی قدر اہمیت بیٹیوں کا بھی حق ہے اور ان کا یہ حق بغیر کسی احسان کے ان کو دینا چاہئیے۔ بچوں اور بچوں کو تعلیم کے یکساں مواقع اور سہولتیں فراہم کرنے کی انتہائی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ باشعور اور پڑھی لکھی عوام کو جس چیز سے جنگی بنیادوں پر دور رہنے کی ضرورت ہے وہ دوران گفتگو مغلظات کا استعمال ہے۔ گالم گلوچ ہمارے معاشرے میں ایک وبا کی طرح سرایت کر چکی ہے اور اب تو بہت سے گھر ایسے ہیں جہاں ایسی گالیاں دیتے ہوئے ایک لحظہ کی ہچکچاہٹ بھی نہیں محسوس کی جاتی جن گالیوں میں خواتین کی بے حرمتی کے پہلو نمایاں ہوں۔ اول تو کسی قسم کی گالی بھی قابل تحسین ہرگز نہیں ہے مگر خصوصی طور پر خواتین کے حوالے سے بکی جانی والی مغلظات سے فوری طور پر نجات حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

اگر انہی دو کاموں سے آغاز کر لیا جائے اور اس پیغام کو ان طبقات میں پھیلایا جائے جن طبقات میں ان دو پہلوؤں پر خاطر خواہ توجہ نہیں جاتی کہ بچوں میں جنس کے لحاظ سے کسی قسم کی تفریق نہیں ہونی چاہئیے اور دوسرا یہ کہ گالم گلوچ سے سختی سے پرہیز کیا جائے تو اس کے نہایت مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

اور اگر ہم صرف اتنا بھی نہیں کر سکتے تو یقین رکھیئے کہ ہماری آئندہ آنے والی نسلیں ہمارے اپنے ہاتھوں اخلاقی تنزلی کے پاتال میں اتر جائیں گی اور ہم افسوس سے صرف ہاتھ ملتے اور اپنا کھانا خود گرم کرتے رہ جائیں گے۔