counter easy hit

ایک نعرہ، ایک امید، ایک خواب

نظریاتی لوگوں کو یہ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ وہ بڑے نظریاتی ہیں کیونکہ انکی اپنی زندگی ایک چلتا پھرتا نظریہ بن جاتی ہے ۔آج میں آپ کو ایک ایسے ہی انسان کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہوں جس کی زندگی ایک چلتا پھرتا نظریہ تھا ۔اس نظریے کا عکس مجھے اسکی بیٹی میں نظر آ رہا تھا۔ایک بیٹی اپنے باپ کو یاد کر رہی تھی اور وہ حالات بتا رہی تھی جن کی سنگینی ایک نظریاتی انسان کے عزم و حوصلے کو توڑنے میں ناکام رہی ۔بیٹی کے لب ولہجے میں اپنے عظیم باپ کیلئے پیار بھی تھا اور فخر و انبساط بھی تھا۔ ایک نظریاتی انسان کی زندگی کی کہانی اس کی بیٹی کی زبانی سنتے ہوئے مجھے بھی فخر محسوس ہو رہا تھا کیونکہ میں اس عظیم بیٹی کے بلانے پر اس کے سامنے بیٹھا تھا ۔اس بیٹی کا نام ڈاکٹر بختاور جام ہے جنہوں نے مجھے اپنے والد کامریڈ جام ساقی کی یاد میں منعقد ہونے والے تعزیتی ریفرنس میں شرکت کیلئے حیدرآباد مدعو کیا تھا ۔

اسلام آباد سے حیدر آباد جانا آسان نہیں ۔زمینی سفر بہت لمبا ہے ان دو اہم شہروں میں براہ راست فضائی رابطہ نہیں ہے ۔پہلے اسلام آباد سے کراچی اور پھر کراچی سے بائی روڈ حیدرآباد آنا کسی ڈرائونے خواب سے کم نہ تھا لیکن جب ڈاکٹر بختاور نے اپنے عظیم بابا کے نام پر حیدرآباد بلایا تو میں نے بلاسوچے سمجھے ہاں کر دی ۔کراچی سے تاج حیدر صاحب کے ہمراہ حیدرآباد روانہ ہوا تو وہ بتانے لگے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے انہیں جو آخری ای میل بھجوائی تھی وہ جام ساقی کی بلوچستان کے بارے میں لکھی گئی ایک رپورٹ تھی جس میں کہا گیا تھا کہ بلوچستان میں نظریاتی سیاست کو مستحکم کرنیکی ضرورت ہے ۔تاج حیدر صاحب بولتے چلے جا رہے تھے اور میں دل ہی دل میں صادق سنجرانی کی نظریاتی بنیادیں تلاش کر رہا تھا جسے کچھ دن پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو کے سیاسی وارثوں نے چیئرمین سینیٹ منتخب کروا کر دعویٰ کیا تھا کہ ہم نے بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ کر دیا ۔ حیدر آباد کے قریب پہنچےتو ہم ایک پل سے گزرے۔پل کے نیچے ایک سوکھا ہوا دریا تھا جس میں برائے نام پانی تھا۔مجھے دریائے راوی یاد آ گیا میں نے تاج حیدر سے پوچھا یہ کیا ہے ؟انہوں نے طنز بھرے لہجے میں کہا کہ یہ ہمارا عظیم دریائے سندھ ہے ۔میں نے پوچھا دریائے سندھ کا پانی کدھر گیا ؟تاج حیدر نے پل پر بریک لگا کر اپنی سفید زلفوں کو سنوارا اور مجھے کہا ذرا مزید غور سے دیکھ لیجئے گا یہ دریائے راوی نہیں دریائے سندھ ہے ۔اور پھر میں خاموش ہو گیا۔اسی خاموشی کے ساتھ ہم حیدرآباد پہنچ گئے جہاں سندھ میوزیم میں جام ساقی کی یاد میں پاکستان بھر کے ترقی پسندوں کو اکٹھا کیا گیا تھا۔
جام ساقی کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، حاصل بزنجو، ڈاکٹر قادر مگسی، ایاز لطیف پلیجو، یوسف لغاری، شاہ محمد شاہ اور نور الہدیٰ شاہ سے لیکر مہیش کمار اور امتیاز عالم تک بہت سے لوگ بہت سے شہروں سے آئے تھے۔تاج حیدر نے انہیں مارکسزم کا صوفی قرار دیا تو میں نے جام ساقی کو ایک ایسا نظریاتی انسان قرار دیا جس نے کبھی پاور پالیٹکس نہیں کی تھی ۔انکی جدوجہد اقتدار کیلئے نہیں بلکہ انقلاب کیلئے تھی۔وہ انقلاب کے نام پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ دھوکہ نہیں کرنا چاہتے تھے اسی لئے انہوں نے کمیونسٹ پارٹی چھوڑ دی۔
کچھ عرصے کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو خود چل کر جام ساقی کے پاس آئیں اور انہیں پیپلز پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی۔جام ساقی بھٹو کی بیٹی کو انکار نہ کر سکے حالانکہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پاور پالیٹکس کرنے والوں نے انہیں جیل میں پھینک دیا تھا لیکن جب سر شاہنواز بھٹو کا بیٹا شہید بھٹو بن گیا تو جام ساقی نے اپنے اختلافات بھلا دیئے تھے۔وہ پیپلز پارٹی میں آ گئے لیکن اپنے نظریے پر قائم رہے۔کبھی نظمیں لکھ کر اور کبھی کہانیاں لکھ کر انقلاب کی خوشبو پھیلاتے رہے ۔انکی زندگی ایک سرخ گلاب کی طرح تھی۔وہ کبھی گلاب بنے کبھی ایک چراغ بنے۔انکی یاد میں سندھ میوزیم میں اکٹھے ہونے والوں نے بھی انکی تصویر کے سامنے گلابوں کا ڈھیر لگا دیا اور بہت سی موم بتیاں روشن کیں۔

اس تعزیتی ریفرنس کی اسٹیج سیکریٹری عرفانہ ملاح نے ڈاکٹر بختاور ساقی کو تقریر کیلئے بلایا تو میرے تجسس میں اضافہ ہوا۔میں دیکھنا چاہتا تھا کہ ایک نظریاتی انسان کی بیٹی کیا تقریر کرتی ہے ؟اور پھر اس بیٹی کے ایک ہی جملے نے میری آنکھیں نم کر دیں۔ڈاکٹر بختاور نے کہا کہ میرے بابا کے پاس خرچ کرنے کیلئے صرف ایک جان تھی اور انہوں نے یہ جان تمام کی تمام اپنے لوگوں پر خرچ کر دی۔ ایک بیٹی اپنے پیارے بابا کی کہانی سنا رہی تھی لیکن مجھے اس کہانی میں ایک نظریے کی گونج سنائی دے رہی تھی۔ ڈاکٹر بختاور کی گفتگو اپنے بابا کی یادوں کے گرد گھوم رہی تھی اور مجھے یہ یادیں یقین دلا رہی تھیں کہ نظریاتی لوگ دنیا سے چلے جاتے ہیں لیکن ان کا نظریہ زندہ رہتا ہے۔ ان یادوں میں وہ دکھ تھے جن سے آج کی پاور پالیٹکس ناآشنا ہے ۔کامریڈ جام ساقی کو 1978ء میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لائی ضابطوں کے تحت گرفتار کیا گیا تو بختاور صرف تین سال کی تھیں۔ایک دن بختاور کی دکھی ماں سکھاں نے سب سے چھوٹی بیٹی زبیدہ کو اپنی گود میں ہی کھو دیا ۔ ننھی زبیدہ بیمار تھی لیکن روئے چلائے بغیر ہی مر گئی۔
کچھ دن بعد ایک خبر آئی کہ جیل میں کامریڈ جام ساقی پر بہت تشدد ہوا اور وہ بھی دنیا چھوڑ گئے۔یہ جھوٹی خبر سنتے ہی دکھوں کی ماری سکھاں نے گائوں کے کنویں میں کود کر جان دیدی۔ پھر بختاور کو اس کے دادا دادی اور بڑے بھائی سجاد ظہیر نے پالا۔جام ساقی 1986ء میں رہا ہوئے تو بختاور کی خوشی سے اس کی دوسری امی اخترسلطانہ لاکر دی گئی۔ اس خاندان میں سارنگ، سروان، پارس اور سونا بھی شامل ہو گئے ۔بختاور کے بابا نے اپنی بیٹی کو تعلیم دلانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور جب جام ساقی کی یہ بیٹی ایم بی بی ایس ڈاکٹر بن گئی تو وہ بہت خوش ہوئے ۔شاہی قلعہ لاہور میں جام ساقی پر بہت تشدد ہوا تھا اور انہیں زہر کے ٹیکے لگائے جاتے رہے۔ان ٹیکوں نے جام ساقی کو بہت سی بیماریوں کا اسیر بنا دیا لیکن جام ساقی اپنی ہر بیماری کو ڈکٹیٹر سمجھ کر اس سے لڑتے رہے ۔جس دن جام ساقی اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ڈاکٹر بختاور نے نا صرف اپنے بہن بھائیوں کابلکہ اپنا حوصلہ بھی قائم رکھا ۔جب جنازہ اٹھا تو ڈاکٹر بختاور نے نعرہ لگایا ’’تیرا ساتھی میرا ساتھ‘‘ جنازے کے شرکاء نے جواب میں کہا ’’جام ساقی جام ساقی ‘‘سندھ میوزیم میں ڈاکٹر بختاور کی تقریر ختم ہوئی تو یہ نعرہ دوبارہ گونجنے لگا۔ایک نظریاتی انسان کی یاد میں بلند ہونے والا یہ نعرہ ایک امید اور خواب بن کر ہمیشہ زندہ رہے گا۔

تحریر: حامد میر  بشکریہ جنگ

AD