counter easy hit

می ٹو مہم کے بعد پاکستان کی ایک مخصوص کلاس کی جانب سے شروع کی گئی نئی مہم کی تفصیلات آپ کو حیران کر ڈالیں گی

لاہور (ویب ڈیسک)   اب اور نہیں۔ کے نام سے ٹوئٹر پر ایک نئی مہم کا آغاز ہو گیا ہے جسکا مقصد معاشرے میں خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات کی حوصلہ شکنی اور ان کا سدباب کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں آگہی پیدا کرنا ہے۔ اس مہم کے سامنے آتے ہی کچھ خواتین اور مرد حضرات اس پر اپنے موقف کے ساتھ میدان میں آ گئے ہیں، یہ مہم دراصل ڈیجیٹل رائٹس گروپ خواتین کے مسائل اور حقوق کی وکالت کرنے والی ایک سماجی تنظیم ہے جس نے اس مہم کو شروع کیا ہے اور اس سلسلے میں مسلسل کئی ٹوئٹس کی ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ ‘ہراساں کرنے کے بہت سے طریقے ہو سکتے ہیں اور اس کو مختلف گروہ مختلف زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔’ انھوں نے مزید کہا کہ ہر روز مختلف جگہوں پر ہراساں کیے جانے کے واقعات پیش آتے ہیں جس سے کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی طور پر متاثر ہوتا ہے جس میں اس کی صحت اور خوش و خرم زندگی بھی شامل ہے۔ بہت سی خواتین اس مہم کی زور شور سے حمایت کررہی ہیں۔ ایک ٹوئٹر صارف سیرت خان لکھتی ہیں کہ محفوظ اور غیر متعصبانہ ماحول خواتین کی ترقی اور آگے بڑھنے کے لیے ‘آن لائن اور آف لائن سپیس’ دونوں میں بہت ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایک حساس ماحول اور جس کا آغاز گھر کے اندر سے ہونا چاہیے انتہائی اہم ہے۔ قانون کا اطلاق ہونا چاہیے اس جانب پہلا قدم خواتین کے خلاف جرائم سے اٹھایا جانا چاہیے۔ ایک اور صارف سدرا کے خیال میں معاشرے میں بہت سے لوگ تو اس مسئلہ کو سمجھتے ہی نہیں۔ اس سوال پر کہ آخر ہراساں کیا جانا ہوتا کیا ہے ؟ سیرت نے جواب دیا کہ ان کے خیال میں ہر وہ عمل جس سے وہ کوفت کا شکار ہوں، بے چینی یا پریشانی محسوس کریں اور جس پر انھیں انکار کرنا پڑے اور کوئی دوسرا وہی کچھ کرنے پر اصرار کرتا رہے میرے خیال میں ہراساں کیے جانے کے زمرے میں آتا ہے۔ ڈجیٹل رائٹس گروپ کی طرف سے پوچھے گئِے ایک اور سوال پر ثنا فرخ شیخ کا کہنا تھا کہ اگر آپ سے کوئی کہے کہ اسے جنسی طور پر ہراساں کیا گیا ہے اس پر شک نہ کریں، اس کی بات سنیں اور اس کی مدد کرنے پر آمادہ رہیں اگر وہ اپنا دکھ بانٹنا چاہیں اور ان کے نجی معاملات کا احترام کریں۔ ایک اور صارف ثنا نے لکھا ہے کہ صرف لڑکے ہی لڑکیوں کر ہراساں نہیں کرتے ، لڑکیاں اور خواتین بھی جنس مخالف کو ہراساں کرتی ہیں دونوں صورتوں میں اس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اور کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہوتا کچھ بھی نہیں اور لوگ صرف الزام لگا کر کسی دوسرے کی زندگی تباہ کر دیتے ہیں ۔