counter easy hit

صحافت کے طالب علموں کے نام ایک تحریر

صحافت ایک ایسا پیشہ ہے جو سننے میں تو بہت آسان لگتا ہے مگر حقیقت میں بہت مشکل ہے۔ یہ ایک ایسی منزل ہے جہاں تک پہنچنے کا کوئی واضح راستہ نہیں ہے، ہر کسی کو اپنے لیے خود راستہ بنانا پڑتا ہے۔ کسی پر انحصار کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، بس اپنا ہی وقت ضائع ہوتا ہے۔

صحافت کے طالبعلم اپنی فیلڈ سے متعلق کئی ابہام رکھتے ہیں خصوصاً طالبات کو کچھ اساتذہ اور ساتھی طلباء “میڈیا لڑکیوں کے لیے اچھی جگہ نہیں ہے” کہہ کر بد دل کرتے نظر آتے ہیں۔

بیشتر طلباء اور کئی اساتذہ سمجھتے ہیں کہ صحافت کی تعلیم بہت ہی آسان ہے جبکہ حقیقت اس سے الٹ ہے۔ صحافت ایک ایسا شعبہ ہے جس میں انسان ہر روز سیکھتا ہے، جس روز وہ نہ سیکھے اسی روز وہ اپنے ہم عصروں سے کئی قدم پیچھے چلا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی میں صحافت کی جدید خطوط پر تعلیم نہیں دی جاتی۔ آج بھی کئی یونیورسٹیوں میں ایسے پروفیسرز طلباء کو صحافت اور ابلاغِ عامہ کی تعلیم دے رہے ہیں جو ریڈیو کے دور کے ہیں اور آج کے دور میں استعمال ہونے والے نیو میڈیا سے نا واقف ہیں یا اسے استعمال کرنا نہیں چاہتے۔

کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹس میں بنے ریڈیو یا ٹی وی اسٹیشنز تو دور کمپیوٹر لیب تک طلباء کو استعمال نہیں کرنے دی جاتی۔ یونیورسٹی کے دور میں ہمیں اپنے ایک پراجیکٹ کے لیے آڈیو ویڈیو لیب کی ضرورت پڑی تو ہمیں کس طرح پروفیسر سے اس کی اجازت لینی پڑی، یہ ایک لمبی کہانی ہے۔  اجازت ملنے کے بعد جب وہاں پہنچے تو پتہ لگا کہ ہم ڈیپارٹمنٹ کے آلات کو ہاتھ نہیں لگا سکتے کیونکہ ہم ان کو خراب کر دیں گے۔ لیب میں موجود سٹاف نے خود ان آلات کو استعمال کرتے ہوئے ہمیں ہمارا پراجیکٹ مکمل کر کے دیا۔ اب اگر اس پراجیکٹ کا مطلب اس سارے عمل سے گزر کر کچھ سیکھنا تھا تو کم از کم ہم اس سے کچھ نہیں سیکھ پائے۔

یونیورسٹی کے پروفیسرز کی بات کریں تو کچھ پروفیسر ایسے ہیں کہ پورا سیمسٹر “خبر کیا ہے؟” میں ہی اٹکے رہیں گے تو کچھ پروفیسر ایسے ہیں جو “آپ مستقبل میں کیا کریں گے؟” کہہ کہہ کر آپ کی ہمت کو کم سے کم کرتے رہیں گے۔ کئی میڈیا کے بڑے نام ہوں گے جو اپنی مضبوط پروفائل کو مضبوط تر کرنے کے لیے کسی کورس کو پڑھانے کا ذمہ لے لیں گے۔ یونیورسٹی آنے کا ان کے پاس ٹائم نہیں ہوگا لیکن بنک اکائونٹ میں انہیں ہمیشہ پوری رقم ہی چاہئیے ہوگی۔

کچھ طلباء بھی ایسے ہوتے ہیں جو صحافت کو آسان سمجھ کر یونیورسٹی میں بس کھیل کود کر گھر واپس چلے جاتے ہیں۔ ان کا کلاسز میں کام بس ساتھی طلباء پر آوازیں کسنا اور اساتذہ کو تنگ کرنا ہوتا ہے۔

کچھ یونیورسٹیز ایسی ہیں جو اپنے طلباء کی چار سالہ تعلیم کو بھی کافی نہیں سمجھتیں اور انہیں ایک روزہ یا سہ روزہ ا‌ینکرنگ یا رپورٹنگ کی ورکشاپس کرواتی ہیں جن کی مد میں اکثر دو سمیسٹر کی فیس کے مساوی رقم وصول کی جاتی ہے۔ اب ان ورکشاپس سے طلباء کا کتنا فائدہ ہوتا ہے، اس حوالے سے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر یونیورسٹیز کا ضرور فائدہ ہوتا ہے۔

جب طلباء “اتنا سب کچھ” سیکھ کر فیلڈ میں آتے ہیں تو انہیں معلوم پڑتا ہے کہ یہاں ان کی تعلیم کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ انہیں دوبارہ سے ٹریننگ دی جاتی ہے، انٹرن شپ کے نام پر چھ، سات ماہ یا اس سے بھی زائد عرصہ تک مفت بیگار لی جاتی ہے۔ آپ کی قسمت اچھی ہہ تو آپ کو چند سکوں کے عوض نوکری دے دی جاتی ہے ورنہ آپ سے معذرت کر کے کسی اور کو آپ کی جگہ انٹرن شپ پر رکھ لیا جاتا ہے۔

میڈیا چینلز میں آپ کو کئی ایسے لوگ ملیں گے جن کے پاس نیچرل سائنسز، انجینئیرنگ حتیٰ کہ میڈیکل تک کی ڈگری ہوگی مگر وہ صحافی بنے بیٹھے ہوں گے۔ یہ لوگ تو ایک طرف، آپ کو یہاں کچھ ایسے بھی ملیں گے جن کے پاس سرے سے کوئی ڈگری ہی نہیں ہو گی اور وہ دس بارہ سٹاف ممبرز پر مشتمل ٹیم چلا رہے ہوں گے۔ ان سے زیادہ تعلیم یافتہ ہو کر ان کے ماتحت کام کرنا بالکل بھی خوشگوار تجربہ نہیں ہوتا۔

یہ سب پڑھ کر آپ دلبرداشتہ نہ ہوں۔ میڈیا کا ہر ادارہ اپنی ساکھ بہتر سے بہتر کرنا چاہتا ہے اور ساکھ بہتر کرنے کے لیے جو بھی طریقہ اپنایا جائے، کامیابی صرف معیاری کام سے ہی ملتی ہے۔ اگر آپ یونیورسٹی کے دوران اپنے اوپر کچھ محنت کر لیں تو آپ باآسانی اپنی پسند کے کسی بھی میڈیا ہائوس میں نوکری حاصل کر سکتے ہیں۔

آپ اپنے آپ کو کیسے ایک بہترین صحافی بنا سکتے ہیں؟ اس کے لیے میں چند گزارشات نیچے لکھ رہی ہوں، امید ہے کہ کسی کے کام آ ہی جائیں گی۔

  1. روزانہ کم از کم دو اردو اور دو انگریزی اخبارات کا مطالعہ کریں۔ یاد رکھیں کہ آپ کا مقصد صرف خبر پڑھ کر معلومات حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ ہر اخبار کا خبر لکھنے کا طریقہ دیکھنا اور آپس میں موازنہ کرنا ہے۔
  2. اسی طرح ہر اہم واقعے پر مختلف چینلز کا آپس میں موازنہ کیا کریں اور دیکھا کریں کہ یہ چینلز ایک ہی خبر کو کس طرح بیان کر رہے ہیں۔ اس سے آپ کو مختلف چینلز کی پالیسی پتہ لگے گی اور آپ کے علم میں بھی اضافہ ہوگا۔
  3. روزانہ کسی اردو خبر کا انگریزی میں ترجمہ کیا کریں اور کسی انگریزی خبر کا اردو میں بھی ترجمہ کیا کریں۔ اس سے آپ کی انگریزی اور اردو دونوں بہتر ہوں گی اور آپ کی ترقی کے امکانات بڑھیں گے۔
  4. ہفتے میں ایک بار کسی بھی اہم موضوع پر اپنے خیالات قلم بند کریں اور کسی بھی آن لائن ویب سائٹ کے بلاگز سیکشن میں بھیج دیں۔ اگر آپ کی تحریر چھپ جائے تو اسے بغور پڑھیں۔ دیکھیں مدیر نے آپ کی تحریر میں کہاں کہاں، کیا کیا تبدیلی کی ہے۔ ان تمام تبدیلیوں سے سیکھیں اور اگلی تحریروں میں ان غلطیوں کو نہ دہرائیں۔ اگر آپ کی تحریر پبلش نہ ہو تو ہمت نہ ہاریں بلکہ اپنی تحریر کا خود ہی تجزیہ کریں اور سوچیں کہ اس کو مزید کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
  5. میں نے بہت سے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو اپنی غلطیوں سے سیکھنا نہیں چاہتے۔ وہ اپنی انا کا پرچم اتنا بلند کر لیتے ہیں کہ ایک تحریر مسترد ہونے پر مدیر سے ہی ناراض ہو جاتے ہیں۔ ایک صاحب نے صفر کے مہینے میں مجھے جشنِ ولادت نبیﷺ پر ایک تحریر لکھ کر بھیجی۔ میں نے انہیں بتایا کہ یہ اگلے مہینے چھپ سکتی ہے۔ ابھی تو صفر پر کوئی تحریر لکھی جائے تو وہ چھپ سکتی ہے لیکن وہ اس بات کو نہ سمجھے اور برا مان گئے۔
  6. اسی طرح ایک اور محترمہ نے مجھے ایک ایسی تحریر بھیجی جس میں خواتین کے لباس کو معاشرے میں پھیلی برائیوں کی وجہ بتایا گیا تھا۔ میں نے ان سے بھی معذرت کر لی۔ وہ دن اور آج کا دن وہ مجھ سے بات کرنا مناسب نہیں سمجھتیں۔
  7. اسی طرح کئی حضرات ایسے ہیں جو ایک تحریر لکھتے ہیں اور اسے کئی اداروں کو بھیج دیتے ہیں۔ ایک ہی تحریر کئی اداروں میں چھپے اس سے بہتر ہے کہ آپ مختلف تحاریر مختلف اداروں میں چھپوائیں۔
  8. اگر آپ کی دلچسپی فوٹو جرنلزم، کارٹون جرنلزم یا براڈ کاسٹ جرنلزم میں ہے تو اسی کے مطابق اپنی سکلز پر کام کریں۔
  9. اپنی فیلڈ کے مشہور لوگوں کو سوشل میڈیا پر فالو کریں اور ان کے ہر نئے کام کو ضرور دیکھا کریں اور ان سے سیکھا کریں۔
  10. سوشل میڈیا پر ملکی و غیر ملکی میڈیا اداروں کو بھی فالو کریں اور دیکھیں وہ کیسے خبروں کی ترسیل کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں۔
  11. ایک بات ذہن نشین کر لیں کہ صحافت میں آپ کو اپنا نام بنانا ہے۔ صحافت میں جس کا جتنا بڑا نام ہو اس کی اتنی ہی زیادہ ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ اگر آپ کو کسی جگہ کام کرنے کا کم معاوضہ مل رہا ہے لیکن وہاں آپ کا کام آپ کے نام سے پبلش ہو رہا ہے تو اس جگہ کو ایسی جگہ پر ترجیح دیں جہاں آپ کا کام آپ کے نام سے پبلش نہیں ہو رہا۔

آخر میں بس ایک راز کی بات بتاتی چلوں، آپ اس فیلڈ میں جتنی مرضی محنت کرلیں تنخواہ کے لفافے کے علاوہ کبھی کوئی لفافہ موصول نہیں ہوگا۔