counter easy hit

جنات اور خلائی مخلوق پر یقین نہیں رکھنے والوں کے لیے ایک سچی کہانی

کراچی: بہت سے لوگ جنات اور خلائی مخلوق پر یقین نہیں رکھتے لیکن اس حقیقت کو جھٹلایا بھی نہیں جاسکتا، ایسی ہی مخلوق کی کہانی ایک پاکستانی لڑکی نے شیئرکی جس کے بارے میں جان کر کسی کے بھی رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔

A true story for those who do not believe on the jinn and space creaturesعلیزے نامی لڑکی نے فیس بک پر لکھا کہ ’جب میں نویں جماعت میں پڑھتی تھی توگلستان جوہر میں منتقل ہوگئے لیکن مزید نہیں بتاﺅں گی کہ کس فلور پر، جب ہم شفٹ ہوئے اور پیکنگ کھول کر مختلف جگہوں پر سامان رکھنا شروع کیا توجب ایک الماری کھولی تووہاں ایک پرانا تعویذ اور ایک ڈمی (گڑیا جیسی جس پر دکانوںمیں کپڑے لٹکائے جاتے ہیں) ملی ، میری بہن نے وہ گڑیاجیسی ڈمی سجائی اور کمرے میں ہی رکھ لی ، ابھی ہماراسامان مکمل طورپر اپنی جگہ پر نہیں آیا تھا ، میں اسی کمرے میں اپنی بہن کیساتھ ہی سوگئی ، تھکاوٹ کی وجہ سے کافی گہری نیند آئی لیکن چیخنے کی شدید آوازکی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی، میں نے کروٹ لی اور دیکھا کہ میری بہن اپنا چہرہ اس گڑیا سے چھپارہی ہے ، مجھے بھی مارے جانے کا خوف ہوا کیونکہ مجھے اس وقت پتہ نہیں چل رہا تھا کہ یہ کیسے ختم ہوگا۔ میں دوڑی اور باتھ روم کی بتی جلادی ، پھر بہن کیساتھ لپٹ گئی، وہ کانپ اور چلارہی تھی ، میں نے اس سے یہ نہیں پوچھا کہ کیا ہوا کیونکہ میں بھی بہت ڈری ہوئی تھی اور یہ معلوم تھا کہ اگر وہ مجھے بتائے گی تو میرا دل کام کرنا چھوڑجائے گا۔

اگلی صبح میں نے ناشتے کے وقت پوچھاتواس نے بتایاکہ ہمیں یہ گڑیاباہر پھینک دینی چاہیے کیونکہ وہ گزشتہ رات حرکت کررہی تھی ، ہم نے والدہ کو بتایاتو وہ اسے باہر پھینکنے پر راضی ہوگئیں اور اس کے بعد سے حالات بگڑنا شروع ہوگئے، ہمیں کبھی ایسا کچھ نہیں سہنا پڑا جو ہمارے ساتھ اس گھر میں ہوا۔ میرے والد کی نوکری چلی گئی اورچھ ماہ میں وہاں سے شفٹ ہونے تک نوکری بحال نہیں ہوسکی۔

سب سے خطرناک بات یہ تھی کہ میری والدہ پر سایہ ہوگیا، آپ تصور کرسکتے ہیں کہ اس گھر میں کیا صورتحال ہوگی جب آپ کی اپنی والدہ ہی اپنی نہ رہے ، ہم بچے تھے اور میری بہنیں بہت چھوٹی تھیں جنہیں یہ سب کچھ سہنا پڑا۔ ایک سال ہونے والا تھا کہ ایک دفعہ ہمارے پڑوسی نے کہاکہ اس سے باہر نکلیں، آپ ایک سال سے یہاں کیسے رہ رہے ہیں جبکہ اس اپارٹمنٹ میں کوئی بھی اتناعرصہ نہیں رہا۔

میری خالہ پنجاب سے آئی تھیں ، سوتے ہوئے انہیں تھپڑپڑے ، وہ مذہبی رجحان کی مالکن ہیں اور جب وہ ہمارے گھر میں داخل ہوئی تھیں تو انہوں نے ہماری والدہ کو کہاتھاکہ اس گھر میں جنات ہیں، آپ کو یہ گھر چھوڑ دینا چاہیے ، میری والدہ کی طبیعت بگڑنے کے بعد پورا گھر ہی عجیب لگتا تھاحالانکہ میری ماں نے کبھی ایک نماز ہی نہیں چھوڑی تھی، جب وہ ٹھیک ہوتی تو نماز پڑھتی، ہم کسی مولوی یا تعویز کرنے والے کے پاس نہیں گئے لیکن میری ماں نے خود ہی قرآن اور نماز سے علاج کیا۔

گھر کا کچن ، لاﺅنج اور ایک کونے والا کمرہ کسی خلائی مخلوق کے قبضے میں تھا ، ہم جتنی مرضی بتیاں جلاتے لیکن ہمارا گھر تاریک ہی رہتا، چیزیں آہستہ آہستہ بہتر ہوتی چلی گئیں لیکن کچھ بھی بالکل درست نہیں تھا، ہم وہاں سات سال تک رہے لیکن دوسری مرتبہ جب ہم نے وہاں سے شفٹنگ کا فیصلہ کیا تو بہت سے رکاوٹیں آئیں جن میں سے چند ہی لکھ سکتی ہوں۔

کراچی میں جھگڑے فسادات شروع ہوگئے جس کی وجہ سے کوئی کوئی سوزوکی یا ٹرک والا سامان دوسری جگہ منتقل کرنے کو تیار نہ تھا، میرے والد کا ایکسیڈنٹ ہوگیا لیکن الحمدللہ،ان کی زندگی بچ گئی، گاڑی بری طرح تباہ ہوگئی جس کی وجہ سے یہ کباڑیہ کو دینا پڑی، میں خود شدید بیمار ہوگئی اور چل پھر بھی نہیں سکتی تھی، ہم نے شفٹنگ کے لیے جو کارٹن پیک کررکھے تھے وہ بھی اگلی صبح بکھرے پڑے تھے جیسے کوئی جنگلی جانور آگیا، کھانے پینے کے برتنوں سمیت تمام سامان فرش پر بکھرا پڑا تھااور ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ طاقتیں نہیں چاہتیں کہ ہم یہاں سے منتقل ہوں، میرے والدین نے فیصلہ کیا کہ جو بھی قیمت چکانا پڑی ، ہم اب اس گھر کو چھوڑدیں گے۔

ڈرائیورکو اونگھ آئی اور پورا ٹرک ہی گر گیا جس کی وجہ سے تقریباً سب کچھ تباہ ہوگیالیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ صرف پانچ منٹ کی مسافت پر ہی انسان کیسے سوسکتاہے۔ اللہ نے گھر چھوڑنے میں ہماری مدد کی لیکن اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی، ہمارے گھر خالی کرنے کے بعد جو فیملی وہاں آئی ، وہ بھی ہمارے جاننے والے تھے ، ان کی والدہ کی ٹانگ ٹوٹ گئی، گزشتہ سال شادی کرنیوالی لڑکی کو طلاق ہوگئی اور ان کی والدہ بھی بسترمرگ پر تھی لہٰذا انہوں نے جلد ہی گھر خالی کردیا۔ یہ گھر تاحال خالی ہے ، کرایہ دار کچھ دیر کیلئے وہاں رہتے ہیں لیکن کچھ وقت کے بعد ہی چھوڑ جاتے ہیں۔