counter easy hit

اسلام کی راہ میں لڑنے والوں کو رسول ؐ اللہ کتنا پیار کرتے تھے ؟ اسلامی تاریخ کا یہ ایمان افروز واقعہ پڑھ کر آپ جان جائیں گے

لاہور(ویب ڈیسک)کفار مکہ کی شرانگیزیوں کے خلاف صحابہ کرامؓ نے رسول اللہﷺ کی زیر قیادت غزوات کے علاوہ سریہ کی مہمات بھی کی تھیں ۔سریہ کا مطلب ہے کہ وہ معرکہ جس میں چار سے پانچ مجاہدین کسی مہم کے لئے بھیجے جاتے اوروہ انتہائی تدبیر اور خفیہ انداز سے

اس مہم کو سر کرتے تھے ۔سریہ عبداللہ بن عتیکؓ بھی ایسی مہم تھی جس میں ایک فتنہ پرور اور گستاخ دولت مند یہودی کو جہنم واصل کیا گیا تھا اور اس مہم کو سرانجام دینے والے مجاہد کو زخمی ہونے پر معجزہ رسول ﷺ سے شفا مل گئی تھے ۔بخاری شریف میں سریہ عبداللہ بن عتیک ؒ کے بارے بیان کیا ہوا ہے کہ ابورافع نامی دولت مند تاجر اسلام کا بدترین دشمن تھا اور بارگاہ نبوت کی شان میں نہایت ہی بدترین گستاخ اور بے ادب تھا۔ ابو رافع وہ بدطینت شرپسند تھاجو حیی بن اخطب یہودی کے ساتھ مل کر کفار قریش اور دوسرے قبائل کو جوش دلاکر غزوہ خندق میں مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے دس ہزار کی فوج لے کر آیا تھا ۔اسکی فتنہ پروری کو چین نہیں آرہا تھا جس پر حضرت عبد اللہ بن عتیکؓ حضرت عبد اللہ بن انیسؓ حضرت ابوقتادہؓ حضرت حارث بن ربعیؓ حضرت مسعود بن سنانؓ حضرت خزاعی بن اسودؓ نے اس دشمن اسلام کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا کہ اس طرح اسلام اور رسول اللہﷺ کی ذات اقدس کو اسکے ناپاک عزائم سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔لہذاان صحابہؓ کی درخواست پر حضور ﷺ نے اجازت دے دی اورحضرت عبداللہ بن عتیکؓ کو

اس جماعت کا امیر مقرر فرما دیا۔اس موقع پر رسول اللہﷺ نے انہیں منع فرما دیا کہ بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کیا جائے۔ صحیح بخاری میں حضرت براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عتیکؓ رات کے وقت سوتے میں ابو رافع کے گھر گئے اور اپنی تلوار ابو رافع کے شکم میں پوری دھنسا دی ۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ یہ یقین ہوگیا کہ ابو رافع کو مارڈالا تو میں دروازہ کھول کر نکلا۔ نکلتے وقت میرے پاؤں نے خطا کی اور غلط جگہ پاؤں پڑجانے کی وجہ سے میں گر گیا۔ جس سے میری پنڈلی ٹوٹ گئی ۔ میں نے اپنی پنڈلی باندھ لی اور وہاں سے اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا۔ آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا حال بتایا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اپنا پیر ذرا پھیلاؤ۔ پھر آپﷺ نے میرے پیر پر اپنا دست مبارک پھیرا۔ آپﷺ کے ہاتھ کی برکت سے میرا پاؤں ایسا تندرست ہوگیا جیسے اس میں کوئی تکلیف ہی نہ تھی۔ ابو رافع کو قتل کرنے کا مفصل قصہ یہ ہے کہ یہ شخص حجاز میں رہتا تھا۔ تاجر شخص تھا وہ نبی کریمﷺ کو بہت تنگ کرتا تھا ۔ چنانچہ آنحضور ﷺ نے عبداللہ بن عتیکؓ کی سرکردگی میںچند انصاری نوجوان کو اس کو قید کرنے یا قتل کرنے کیلئے بھیجا۔ابو رافع کا مکان جس وادی میں تھا وہاں سے لوگ پہنچے ہی تھے کہ شام ہوگئی۔ عبداللہ بن عتیکؓ نے اپنے ساتھیوں کو ایک جگہ روک دیا اور خود کسی بہانے سے ابو رافع کے گھر میں گھسنے کی غرض سے آگے بڑھے۔ اتفاق سے اس دن ابورافع کا گدھا گم ہوگیا تھا۔ لوگ اس کی تلاش میں چراغ لے کر نکلے تھے۔ عبداللہ کو ڈر ہوا کہ کہیں یہ لوگ پہچان نہ لیں۔ چنانچہ سرڈھانک کر ایک جگہ قضائے حاجت کے بہانے بیٹھ گئے۔ گدھا تلاش کرکے لوگ گھر میں چلے گئے تو دربان نے عبداللہؓ کو بیٹھا دیکھ کر اپنا ہی آدمی سمجھا اور پکار کر کہا ’’اگر تجھے آنا ہے تو آ ورنہ میں دروازہ بند کرتا ہوں‘‘ چنانچہ عبداللہؓ بھی مکان میں گھس گئے اور گدھے باندھنے کی جگہ میں دبک کر بیٹھ گئے۔ دربان نے دروازہ بند کر کے کنجی کھونٹی پر لٹکادی ۔ ابو رافع اپنے ساتھیوں کے ہمراہ رات کے کھانے سے فارغ ہو کر تھوڑی دیر بات کر کے خواب گاہ میں لیٹ گیا اور دوسرے لوگ بھی اپنی اپنی خوابگاہ میں چلے گئے ۔ اس وقت عبداللہؓ نے کنجی لے کر صدر دروازہ کھولا

اور تمام لوگوں کے دروازے باہر سے بند کر دیے تاکہ شور سن کر باہر نہ نکل سکیں۔ پھر ایک ایک دروازہ کھولتے ہوئے ابو رافع کی خوابگاہ تک پہنچے۔ ابو رافع اپنے بال بچوں کے درمیان سویا ہوا تھا اور رات کی تاریکی کے باعث اس کا پہچاننا مشکل تھا۔ چنانچہ عبداللہ نے ابو رافع کو پکارا ۔ابو رافع نے جواب دیا’’ کون ہے؟ ‘‘آواز کی جانب بڑھ کر عبداللہؓ نے تلوار چلائی مگر وار خالی ہوگیا۔ ابو رافع چلایا، پھر خاموش ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد عبداللہ نے آواز بدل کر ہمدردی کے لہجے میں پوچھا ’’ کیا ہوا اے ابو رافع !‘‘ ابو رافع نے اسے اپنا آدمی جان کر کہا ’’تو کہاں تھا ، ابھی میرے اوپر کسی نے تلوار سے حملہ کیا تھا‘‘ ابو رافع کی آواز سے اندازہ لگ گیا کہ وہ کس جگہ سو رہا ہے۔ چنانچہ قریب جا کر عبداللہ نے ایساہاتھ مارا کہ اس کا کام تمام ہو گیا۔ اس کے پیٹ پر تلوار رکھ کر زور سے دبا دیا اور اس کے پیٹ سے پار کر دیا۔ اس کو مار کر عبداللہ باہر آئے۔ چاندنی رات میں زینہ سے اتررہے تھے۔ابھی ایک زینہ باقی تھا اور انہیں معلوم ہوا کہ زمین تک پہنچ گیاہوں ۔ چنانچہ ایک زینے کے اوپر سے گرگئے۔ پنڈلی ٹوٹ گئی اور پھر وہ واقعہ پیش آیا جس سے آنحضور ﷺ کے مبارک ہاتھ کا معجزہ ظاہر ہوا کہ آپ ﷺ نے ہاتھ پھیر دیا اور پنڈلی پر مسح کیا اور عبداللہ کی پنڈلی درست ہوگئی ۔